رمضان شريف كي فضيلت كے بارے میں امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے حضرت سلمان فارسی رضي الله عنه سے ایک لمبی روایت نقل کی، جو صاحب مشکوۃ نے بھی اپنی کتاب میں ذکر کی ہے۔ اس حدیث میں ایک جملہ یہ ہے:"من فطر صائما كان له مغفرة وعتق رقبته من النار" میں جاننا چاہتا ہوں کہ اس حدیث میں وارد ہونے والا لفظ "مغفرۃ" اور"عتق"کا صحیح اعراب کیا ہے؟ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ نے ’’اشعۃ اللمعات‘‘ میں فرمايا: بالنصب والرفع ، اور ملا علي القاری رحمه الله پہلے اعراب بالنصب کہہ کر آخر میں فرمایا : "وفى نسخة: برفع المغفرة والعتق، فالمعنی : حصل له مغفرة وعتق، وكان له أي: حصل للمفطر مثل أجره، أي: مثل ثواب الصائم "۔ اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں "نصب " و "رفع" دونوں جائز ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا محدثین کے اقوال اور عربی قواعد کے اعتبار سے لفظ"مغفرۃ"اور"عتق"میں نصب و رفع دونوں جائز ہیں یا صرف نصب؟
مذکورہ جملہ(كان له مغفرة وعتق)میں مغفرۃ اور عتق کو منصوب پڑھنا بھی جائز ہے، اس صورت میں یہ مغفرۃ اور عتق کان ناقصہ کی خبر بنیں گے، اور دونوں کو مرفوع پڑھنا بھی جائز ہے، اس صورت میں کان تامہ ہوگا بمعنی حصل، اور مغفرۃ اور عتق اس صورت میں فاعل واقع ہوں گے۔
" كان " أي: التفطير " له " أي: للمفطر "مغفرة لذنوبه وعتق رقبته ".... وفى نسخة: برفع المغفرة والعتق، فالمعنى: حصل له مغفرة وعتق."
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح: كتاب الصوم،4/ 1367، ط: دار الفكر، بيروت ، الطبعة الأولى: 1422هـ = 2002م)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144409100481
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن