بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

قیامت کے دن دو گناہ گاروں کی بخشش سے متعلق حدیث


سوال

اللہ تعالی قیامت کے دن لوگوں کو جہنم کی طرف بھیجے گا، ایک دوڑے جائے گا اور دوسرا مڑکر دیکھے گا کہ اللہ تعالی اس سے پوچھیں گے تو کیوں دوڑے جا رہا ہے؟ تو  وہ کہے گا کہ میں نے دنیا میں کبھی آپ کی بات نہیں مانی، سوچا آج آپ کی بات مان لوں،  اور  دوسرے  سے پوچھیں گے کہ تم کیوں مجھے دیکھ رہے ہو؟  تو وہ کہے گا کہ میں نے دنیا میں سنا تھا کہ آپ بہت مہربان ہیں،  میں سوچ رہا ہوں کہ شاید آپ کو رحم آ جائے تو آپ مجھے معاف کر دے،  کیا یہ واقعہ صحیح ہے؟

 

جواب

مذکورہ  واقعہ معنی کے اعتبار سے احادیث میں موجود ہے، بعینہ ان الفاظ سے احادیث کی مشہور   کتب  میں موجود نہیں ہے۔

البتہ امام غزالی رحمہ اللہ نے  "احیاء العلوم"  میں حضرت سعد بن بلال رضی اللہ عنہ سے اس طرح روایت نقل کی ہے:

"حضرت سعد بن بلال فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن دو شخصوں کو جہنم سے نکالنے کا حکم ہوگا، پھر اللہ تعالیٰ ان سے ارشاد فرمائیں گے: کہ تمھارا جہنم میں داخل ہونا تمھاری بداعمالی کی وجہ سے تھا اور میں تو کسی بندے پر ادنیٰ ظلم بھی نہیں کرتا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ دوبارہ ان کو جہنم میں جانے کا حکم دے دیں گے، تو ان دونوں میں سے ایک کا حال تو یہ ہوگا کہ وہ تیزی سے جہنم کی طرف دوڑکر اس میں گھس جائے گا، اور دوسرا شخص واپس جانے میں ہچکچائے گا، پھر اللہ تعالیٰ دونوں کو واپس بلاکر ان سے ان کے فعل سے متعلق دریافت کریں گے، تو ان میں سے جو شخص جہنم کی طرف تیزی سے بھاگا تھا، وہ کہے گا کہ میں نے آپ کی نافرمانی کے خوف سے ایسا کیا کہ کہیں دوبارہ آپ کی ناراضی کا مستحق نہ ہوجاوٴں، اور دوسرا شخص بولے گا کہ اے ا للہ میں نے تو آپ کے ساتھ  اچھا گمان رکھتے ہوئے ایسا کیا کہ آپ کی ذات ایسی نہیں ہے کہ جہنم سے نکالنے کے بعد دوبارہ اس میں واپس بھیج دے، پھر اللہ تعالیٰ  دونوں کو ہی جنت میں بھیج دیں گے۔"

إحياء علوم الدين ومعه تخريج الحافظ العراقي (7/ 321):

"و قال سعد بن بلال: يؤمر يوم القيامة بإخراج رجلين من النار، فيقول الله تبارك وتعالى: ذلك بما قدمت أيديكما و ما أنا بظلام للعبيد، و يأمر بردّهما إلى النار، فيعدو أحدهما في سلاسله حتى يقتحمها و يتلكّأ الآخر، و يأمر بردّهما، و يسألهما عن فعلهما، فيقول الذي عدا إلى النار: قد حذرت من وبال المعصية، فلم أكن لأتعرض لسخطك ثانيةً، و يقول الذي تلكّأ: حسن ظني بك، كان يشعرني أن لاتردني إليها بعد ما أخرجتني منها، فيأمر بهما إلى الجنة."

مسند أحمد مخرجًا (37/ 454):

"أن فضالة بن عبيد، و عبادة بن الصامت، حدثاه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "إذا كان يوم القيامة، و فرغ الله من قضاء الخلق فيبقى رجلان، فيؤمر بهما إلى النار، فيلتفت أحدهما، فيقول الجبار ردوه، فيردونه. قال له: لم التفت؟ قال: إن كنت أرجو أن تدخلني الجنة. قال: فيؤمر به إلى الجنة، فيقول لقد أعطاني الله حتى لو أني أطعمت أهل الجنة ما نقص ذلك ما عندي شيئًا " قال: فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا ذكره يرى السرور في وجهه."

ترجمہ: فضالہ بن عبید اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب قیامت کے دن اللہ تعالی مخلوق کے فیصلہ سے فارغ ہوں گے تو دو آدمی  رہ جائیں گے ، اللہ تعالی ان دونوں کو جہنم جانے کا حکم دیں گے ، ان میں سے ایک مڑ مڑ کر دیکھے گا، تو اللہ تعالی (فرشتوں سے ) فرمائیں گے کہ اس کو واپس کردو ، تو فرشتے اس کو  لوٹادیں گے، تو اللہ تعالی اس سے فرمائیں گے تم نے کیوں مڑ کر دیکھا ؟ وہ کہے گاکہ میں آپ سے  جنت میں داخلہ کا امید وار تھا ، تو اس کو جنت کا فیصلہ سنا دیا جائے گا، تو یہ شخص کہے گا کہ اللہ تعالی نے مجھے اتنا عطا کیا کہ اگر میں تمام اہلِ  جنت کو کہلاؤ ں تو پھر بھی میرے پاس سے کچھ کم نہیں  ہوگا، راوی کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ اس بات کا ذکر فرمارہے تھے تو آپ کے چہرہ سے خوشی ظاہرہو رہی تھی۔     

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144301200082

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں