بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حضرت آدم علیہ السلام کو کس درخت کے قریب جانے سے منع کیا گیا تھا؟


سوال

حضرت آدم علیہ السلام کو جس درخت کے قریب جانے سے منع کیا گیا تھا، اور بعد میں حضرت آدم اور حوا دونوں نے اس درخت کے دانے کو کھایا تھا، تو وہ دانا کس چیز کا تھا؟ گندم کا یا باجرے کا؟

جواب

حضرت آدم اور حضرت حوا علیہما السلام کو جس درخت کے کھانے سے منع کیا گیا تھا، اس میں متعدد اقوال ہیں: چناں چہ مشہور یہ ہے کہ وہ گندم کا تھا، تاہم انگور،  انجیر، کافور اور دیگر کےبھی اقوال موجود ہیں، لیکن اس درخت کا تعین  نہ قرآن کریم  میں مذکور ہے، نہ ہی  کسی مستند حدیث سے ثابت ہے، اور اسی لیےمفسرین کے نزدیک  مناسب یہی ہے کہ اس میں کسی ایک کو متعین نہ کیا جائے، بل کہ جس طرح قرآن و حدیث نے اس کو مبہم ذکر کیا ہے، ایسا ہی اس کو غیر متعین ہی رہنے  دیا جائے، خاص کر جب کہ اس سے دین کا کوئی عقیدہ وابستہ نہیں۔

روح المعاني میں ہے:

"ووقع خلاف في هذه الشجرة، فقيل: الحنطة، وقيل: النخلة، وقيل: شجرة الكافور- ونسب إلى علي كرم الله تعالى وجهه. وقيل: التين، وقيل: الحنظل، وقيل: شجرة المحبة، وقيل: شجرة الطبيعة والهوى «وقيل، وقيل ... » والأولى عدم القطع والتعيين، كما أن الله تعالى لم يعينها باسمها في الآية، ولا أرى ثمرة في تعيين هذه الشجرة".

(سورة البقرة، آيت نمبر: 35، 1/ 236، ط: دار الكتب العلمية)

تفسير مظهری میں ہے:

"والشجرة هى السنبلة على قول ابن عباس ومحمد بن كعب، والعنب على قول ابن مسعود، والتين على قول ابن جريح، والكافور على قول على، وقال قتادة: شجرة العلم، وفيها من كل شىء، فقيل: وقع النهى على جنس من الشجرة، وقيل: على شجرة مخصوصة، والظالمين أي الضارين أنفسكما بالمعصية، وأصل الظلم وضع الشيء في غير موضعه".

(سورة البقرة، آيت نمبر:35، 1/ 57، ط: مكتبة الرشدية الباكستان)

تفسير قرطبي میں ہے:

"التاسعة: واختلف أهل التأويل في تعيين هذه الشجرة التي نهي عنها فأكل منها، فقال ابن مسعود وابن عباس وسعيد بن جبير وجعدة بن هبيرة: هي الكرم، ولذلك حرمت علينا الخمر. وقال ابن عباس أيضاً وأبو مالك وقتادة: هي السنبلة، والحبة منها ككلى البقر، أحلى من العسل وألين من الزبد، قاله وهب بن منبه. ولما تاب الله على آدم جعلها غذاء لبنيه. وقال ابن جريج عن بعض الصحابة: هي شجرة التين، وكذا روى سعيد عن قتادة، ولذلك تعبر في الرؤيا بالندامة لآكلها من أجل ندم آدم عليه السلام على أكلها، ذكره السهيلي. قال ابن عطية: وليس في شي من هذا التعيين ما يعضده خبر، وإنما الصواب أن يعتقد أن الله تعالى نهى آدم عن شجرة فخالف هو إليها وعصى في الأكل منها. وقال القشيري أبو نصر: وكان الإمام والدي رحمه الله يقول: يعلم على الجملة أنها كانت شجرة المحنة".

(سورة البقرة، آيت نمبر:35، 1/ 305، ط: دار الكتب المصرية - القاهرة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144501102559

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں