بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

"دہر" کو برا نہ کہنے سے متعلق حدیث میں "دہر" سے مراد زمانہ ہے یا وقت؟


سوال

صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ایک حدیث ہے جس میں "دہر"  کو برا کہنے سے منع فرمایا گیا ہے، یہاں دہر سے مراد وقت ہے یا زمانہ؟

جواب

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

"ابن آدم (انسان)   مجھے تکلیف دیتا ہے، (یعنی اس طرح کہ) وہ زمانہ کو برا کہتا ہے حال آں کہ زمانہ (کچھ نہیں وہ) میں ہی ہوں، سب تصریفات میں میرے قبضہ میں ہے، اور شب وروز کی گردش میرے ہی حکم سے ہوتی ہے۔"

مذکورہ حدیث میں "دھر" سے مراد زمانہ اور وقت دونوں ہی ہیں، کیوں کہ زمانہ اور وقت قریباً ایک ہی ہیں، وقت لمحے بھر کو بھی کہا جاتا ہے، جب کہ زمانہ کچھ مدت وقت کے لیے استعمال ہوتاہے، گویا وقت زمانے کا ہی حصہ ہے، جاہلوں کی عادت ہے کہ وہ انسانوں کو اپنی پیدا کی ہوئی پریشانیوں اور مصیبتوں کو برائی کی صورت میں زمانے اور وقت کے سرپر ڈال دیتے ہیں، اور اپنی زبان سے اس طرح کے الفاظ نکالتے ہے کہ زمانہ خراب ہے، بہت برا وقت ہے، حدیث شریف میں زمانہ اور وقت کو برا کہنے کی مذمت کی گئی ہے، کیوں کہ زمانہ کا خالق اللہ تعالیٰ ہے، اور زمانے کو برا کہنے کا مطلب اللہ تعالیٰ کو برا کہنے کے مترادف ہے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ( «قال الله تعالى: يؤذيني ابن آدم، يسب الدهر وأنا الدهر بيدي الأمر، أقلب الليل والنهار» ) متفق عليه.

 (قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قال الله تعالى: يؤذيني) بالهمز ويبدل، أي يقول في حقي (ابن آدم) ما أكره، وينسب إلي ما لا يليق بي، أو ما يتأذى به من يصح في حقه التأذي ... (وأنا الدهر) يروى برفع الراء، قيل: هو الصواب، وهو مضاف إليه أقيم مقام المضاف أي أنا خالق الدهر، أو مصرف الدهر، أو مقلبه، أو مدبر الأمور التي نسبوها إليه، فمن سبه بكونه فاعلها عاد سبه إلي؛ لأني أنا الفاعل لها، وإنما الدهر زمان جعل ظرفا لمواقع الأمور، وأتى بأداة الدهر مبالغة في الرد على من يسبه، وهم صنفان: دهرية لا يعرفون للدهر خالقا ويقولون: {وما يهلكنا إلا الدهر} [الجاثية: 24] أو معترفون بالله تعالى لكنهم ينزهونه عن نسبة المكاره إليه، فيقولون: تبا له، وبؤسا، وخيبة، ونحو ذلك. وقد يقع من بعض عوام المؤمنين جهالة وغفلة، ويروى بنصب الدهر على الظرفية أي أنا الفاعل أو المتصرف في الدهر، وقيل: الدهر الثاني غير الأول، فإنه بمعنى زمان مدة العالم من مبدأ التكوين إلى أن ينقرض، أو الزمن الطويل المشتمل على تعاقب الليالي والأيام، بل هو مصدر بمعنى الفاعل، ومعناه أنا الداهر المتصرف المدبر المفيض لما يحدث. وقال الراغب: الأظهر أن معناه أنا فاعل ما يضاف إلى الدهر من الخير والشر والمسرة والمساءة، فإذا سببتم الذي تعتقدون أنه فاعل ذلك فقد سببتموني،"

(كتاب الايمان، ج:1، ص:96، ط:دارالكتب العلمية)

معجم الفروق اللغویۃ میں ہے:

"الفرق بين الزمان و الوقت: أن الزمان أوقات متوالية مختلفة أو غير مختلفة.

فالوقت واحد و هو المقدر بالحركة الواحدة من حركات الفلك و هو يجري من الزمان مجرى الجزء من الجسم والشاهد أيضًا أنه يقال: زمان قصير وزمان طويل ولايقال: وقت قصير."

(الفرق بين الزمان والوقت، ص:268، ط:مؤسسة النشرالاسلامى)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144205201373

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں