بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حدیث جو ہر مہینے تین دن صبح کے وقت شہد چاٹ لیا کرے تو اسے کوئی بڑی مصیبت نہیں پہنچے گی کی اسنادی حیثیت


سوال

 نبیﷺ نے فرمایا جو  شخص ہر مہینے تین دن صبح کے وقت  میں شہد چاٹ لیا کرے تو اسے کوئی بڑی مصیبت نہیں پہنچے گی۔ کیا یہ  حدیث صحیح ہے؟  بعض کہہ رہے ہیں کہ صحیح ہے  اور بعض کہہ رہے ہیں کہ ضعیف   اور موضوع ہے۔ براہ مہربانی اس کی سند کے متعلق تحقیقی بات بتادیں۔

جواب

مذكوره روايت ’’سنن  ابن ماجہ‘‘میں درج ذیل الفاظ میں منقول ہے : 

"عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من لعق العسل ثلاث غدوات كل شهر، لم يصبه عظيم من البلاء".

ترجمہ: نبیﷺ نے فرمایا جو ہر مہینے تین دن صبح کے وقت شہد چاٹ لیا کرے تو اسے کوئی بڑی مصیبت نہیں پہنچے گی۔

(سنن ابن ماجه، باب العسل، (2/ 1142) برقم (3450)، ط/ دار إحياء الكتب العربية)

تخریج حدیث: 

(1) " التاريخ الكبير للبخاري (المتوفى: 256هـ) (6/ 54) برقم (1688)، ط/ دار الفكر. 

(2) مسند أبي يعلى الموصلي (المتوفى: 307هـ) (11/ 299) برقم (6415)، ط/ دار المأمون للتراث - دمشق. 

(3) الكنى والأسماءللدولابي (المتوفى: 310هـ)  (2/ 572) برقم (1025)، ط/ دار ابن حزم - بيروت.

(4)الضعفاء الكبير للعقيلي (المتوفى: 322هـ) (3/ 40) برقم (996)، ط/ دار المكتبة العلمية - بيروت.

(5)  المجروحين لابنحبان (المتوفى: 354ه) (8/ 392) رقم الترجمة (372)، ط/  دار الصميعي للنشر والتوزيع، الرياض. 

(6)المعجم الأوسط للطبراني (المتوفى: 360هـ) (1/ 130) برقم (408)، ط/ دار الحرمين - القاهرة. 

(7) الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي (المتوفى: 365 هـ) (5/ 148) برقم (7412)، ط/ مكتبة الرشد - الرياض. 

(8) أمالي ابن بشران (المتوفى: 430هـ)  (ص: 352) برقم (809)، ط/ دار الوطن، الرياض.

(9) الطب النبوي لأبي نُعيم الأصبهاني (المتوفى: 430هـ)، باب في سقي السموم ولدوغ الهوام، (2/ 546) برقم (563)، ط/ دار ابن حزم.

(10) شعب الإيمان للبيهقي (المتوفى: 458هـ)، باب أكل اللحم، (8/ 84) برقم (5530)، ط/ مكتبة الرشد للنشر والتوزيع بالرياض."

حکم ِحدیث:
علامه بوصيری رحمہ اللہ   (المتوفى: 840ھـ) فرماتے ہیں : 

" هذا إسناد فيه لين، ومع ذلك فهو منقطع، قال البخاري: لا يعرف لعبد الحميد سماع من أبي هريرة، وقال العقيلي: ليس له أصل عن ثقة، قلت: رواه أبو يعلى الموصلي في مسنده: ثنا أبو الربيع قال ثنا سعيد بن زكريا أبو عمر المدائني فذكره بتمامه، ورواه ابن الجوزي في الموضوعات من طريق أبي الربيع الزهراني عن سعيد بن زكريا به فذكره بإسناده ومتنه، وقال: هذا حديث لا يصح"

"يعني  اس  سند میں ضعف ہے، اور اس کے ساتھ یہ روایت منقطع بھی ہے ، امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ  عبد بن حمید  رحمہ اللہ کا  ابو ہریرۃرضی اللہ عنہ سے سماع، مشہور نہیں ہے، امام عُقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کی اصل   کسی ثقہ راوی سے نہیں ہے، بوصیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ اس روایت کو ابو یعلي موصلی رحمہ اللہ نے بھی اپنی مسند میں اس طرح  روایت کیا ہے: ثنا أبو الربيع قال ثنا سعيد بن زكريا أبو عمر المدائني اور پھر  اس سند کے ساتھ مکمل روایت کو ذکر کیا ہے،  اور  اس روایت کو ابن جوزی رحمہ اللہ نے (اپنی کتاب ) موضوعات میں  ابو  ربیع زہرانی  کے طریق سے اس سند اور متن کے ساتھ ذکر کیا ہے،  اور فرمایا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔"

(مصباح الزجاجة، باب العسل، (4/ 45) برقم (9911)، ط/ دار العربية - بيروت)

مذكوره عبارت سے معلوم ہوا کہ ابن جوزی رحمہ اللہ (المتوفى: 597ھـ) نے  اس روایت کو اپنی کتاب ’’الموضوعات‘‘  میں ذکر فرمایا ہے، اور اسے موضوع قرار دیا ہے، اس لیے کہ  اس کی سند میں زبیر بن سعیدقابلِ اعتماد راوی نہیں ہے ، اور عُقیلی رحمہ اللہ کے مطابق  اس روایت کی اصل   کسی ثقہ راوی سے نہیں ہے۔ اسی طرح ان سے قبل ابن القيسراني  رحمه الله (المتوفى: 507ھ) نے بھی اس روایت کو اپنی کتاب’’معرفة التذكرة في الأحاديث الموضوعة‘‘میں ذکر فرما کرراوی  زبیر بن سعید کے منکر الروایۃ ہونے، اور امام  یحیی بن معین رحمہ اللہ کے ان کے بارے مقولہ (  معتمد راوی نہیں ہے  ) کی بنیاد پر  اس کے موضوع  (من گھڑت )ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔

(دیکھیے : معرفة التذكرة في الأحاديث الموضوعة لابن القیسرانی، حرف اللَّام مَعَ مَن، (ص:232) برقم (883 )، ط/ مؤسسة الكتب الثقافية - بيروت)

( الموضوعات لابن الجوزي،كتاب الطب، (3/ 215)، ط/  المكتبة السلفية بالمدينة المنورة)

ليكن علامه سيوطي رحمه الله   (المتوفى: 911ھ)نے ابن جوزی رحمہ اللہ کی طرف سے ان  کی ذکر کردہ بنیادوں (راوی زبیر بن سعید پر کلام اور عُقیلی رحمہ اللہ کے ارشاد )پر  اس  روايت  کو موضوع قرار دیےجانے سے اختلاف فرمایا ہے، اور ان کے بر عکس راوی زبیر بن سعید کی توثیق نقل فرما کر، اور روایت کے ایک اور طریق سےثبوت ذکر فرما کر اس کی اصل کے ثابت ہونےکی طرف اشارہ فرمایا ہے، علامه سيوطي رحمه الله کی اصل عبارت ملاحظہ فرمائیں : 

"قلت: وثّقه أبو زرعة وأحمد، والحديث أخرجه البخاري في تاريخه، وابن ماجه، والبيهقي في شعب الإيمان، وله طرق آخر عن أبي هريرة، أخرجه أبو الشيخ بن حيّان في كتاب الثواب".

"يعني سيوطي رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں کہتا ہوں اس راوی کی توثیق ابوزرعۃ اور امام احمد رحمہما اللہ نے فرمائی ہے، اور یہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ نےبھی  اپنی تاریخ میں  ذکر فرمائی ہے، بیہقی رحمہ اللہ نے اسے شعب الایمان میں ذکر فرمایا ہے، اور اس کا ایک اورطریق بھی ہے، جسے ابو الشیخ بن حیان نے اپنی کتاب الثواب میں ذکر فرمایا ہے۔"

(تعقبات سیوطی علي موضوعات ابن جوزی، کتاب الجنائز، (ص: ۲۲) ، ط/طبع محمدی لاہو، سنِ طباعت: 1886ء) 

ابو الشيخ بن حيان رحمه الله کے ذکرکردہ طریق کو علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة ‘‘ میں  ذکر فرمایا ہے، اسے ملاحظہ فرمائیے : 

" وَلَهُ شَاهد. قَالَ أَبُو الشَّيْخ فِي الثَّوَاب: حَدَّثَنَا أَحْمَد بْن الْحَسَن بْن عَبْد الْملك، حَدَّثَنَا أَبُو أُمَيَّة الْحَرَّانِي، حَدَّثَنَا عُثْمَان بْن عَبْد الرَّحْمَن عَنْ عَلِيّ بْن عُرْوَة عَنْ عَبْد الْملك عَنْ عَطَاء عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَرْفُوعا: مَنْ شَرِبَ الْعَسَلَ ثَلاثَةَ أَيَّامٍ فِي كُلِّ شَهْرٍ عَلَى الرِّيقِ عُوفِيَ مِنَ الدَّاءِ الأَكْبَرِ الْفَالِجِ وَالْجُذَامِ والبرص."

"یعنی مذکورہ روایت کا ایک شاہد بھی ہے،جسے ابو الشیخ بن حیان رحمہ اللہ نے سند کے ساتھ ذکر فرمایاہے کہ  جس نے ہرماہ تین دن نہار منہ شہد پیا، وہ فالج،جذام اور برص جیسی بڑی بیماریوں سے محفوظ ہوگیا۔

(اللآلىء المصنوعة، كتاب المرض والطب، (2/ 344)، ط/  دار الكتب العلمية - بيروت)

علامہ سیوطی رحمہ اللہ کے  ابن حوزی رحمہ اللہ کے حدیث ِمذکور کو من گھڑت قرار  دینے سے اختلاف کرنے کو علامہ  محمد عبد الرشید نعمانی رحمہ اللہ   (المتوفی:1420ھ)نے بھی  اپنی کتاب’’الٳمام ابن ماجه وكتابه السنن‘‘ میں  احادیث ِسنن ابن ماجہ پر کلام کرتے ہوئے  باحواله نقل فرمايا ہے، اور اس پر مزید کوئی رد ّوقَدح نہ فرما کر علامہ سیوطی رحمہ اللہ کے مؤقف کے مطابق حدیث مذکور کے من گھڑت قرار دیے جانے کی مخالفت کی طرف اشارہ فرمایا ہے،   مزید  براں شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ (المتوفی:1417ھ) نے بھی علامہ نعمانی رحمہ اللہ کی مذکورہ کتاب (جو انہوں اپنی تحقیق وتعلیق سےخود شائع فرمائی) کی تعلیق میں کوئی نکیر نہ کرکے گویا ان سے  اتفاق کیا ہے۔

(الٳمام ابن ماجه وكتابه السنن، سياق أحاديث ابن ماجه التي أدرجها ابن الجوزي في الموضوعات، الحديث التاسع والعشرون، (ص: 219)، ط/ مكتب المطبوعات الإسلامية)

 مذكوره  تفصیل سے واضح ہوا کہ اس  روايت  کی اصل موجود ہے، لہذا اسے  موضوع نہیں  قرار ديا جا سکتا، اور  متعدد اسانید کی بنا پر یہ روایت حسن لغیرہ یا  کم از کم ضعیف  خفیف ہے،   اور اس پر عمل کی گنجائش ہے۔  

فقط  واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200614

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں