مشہور ہے کہ اگر وضو میں مسواک کی جائے پھر تلاوت کرے تو فرشتے قاری کے منہ سے منہ لگا کر قران مجید سنتے ہیں اور اگر وضو میں مسواک نہ کی ہو تو گرد حلقہ بنا کر سنتے ہیں، اس میں کتنی سچائی ہے؟
اس مضمون کی حدیث متعدد کتبِ حدیث میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے كہ:
"حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مسواک کرنے کی ترغیب دی اور فرمایا: کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بندہ جب مسواک کر کے نماز پڑھتا ہے تو فرشتہ اس کے پیچھے کھڑا ہو جاتا ہے اور اس کی قرأت سنتا رہتا ہے، پھر وہ فرشتہ اس کے بالکل قریب ہو جاتا ہے( یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جیسی کوئی اور بات ارشاد فرمائی)یہاں تک کہ اس پڑھنے والے کے منہ پر اپنا منہ رکھ دیتا ہے اور وہ نمازی قرآن کا جو حر ف بھی پڑھتا ہے وہ فرشتہ کے پیٹ میں چلا جاتا ہے، پس تم قرآن پڑھنے کے لیے اپنے منہ کو صاف رکھا کرو"۔
اس حدیث کوعلامہ منذری (المتوفى:656ھ) اور علامہ ہیثمی (المتوفى:807ھ) رحمہا اللہ نے "صحیح " کہا ہے۔اوریہ حدیث درجِ ذیل الفاظ کےساتھ "مسندالبزار"میں"السنن الکبری للبیہقی"میں "الزہد والرقائق لابن المبارک " اوردیگرکتب حدیث میں مذکورہے،چنانچہ حدیث کےالفاظ درجِ ذیل ہے:
مسندالبزارکی روایت:
"عن علي رضي الله عنه أنه أمر بالسواك، وقال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: إن «العبد إذا تسوك، ثم قام يصلي قام الملك خلفه، فتسمع لقراءته فيدنو منه» أو كلمة نحوها «حتى يضع فاه على فيه فما يخرج من فيه شيء من القرآن، إلا صار في جوف الملك، فطهروا أفواهكم للقرآن".
(مسند البزار، ومما روى سعد بن عبيدة، عن أبي عبد الرحمن عن علي، رقم الحدیث:603، ج:2 / ص:214، ط: مكتبة العلوم والحكم المدينة المنورة)
السنن الکبری للبیہقی کی روایت:
"عن علي رضي الله عنه، قال: أمرنا بالسواك. وقال: " إن العبد إذا قام يصلي أتاه الملك فقام خلفه يستمع القرآن ويدنو، فلا يزال يستمع ويدنو حتى يضع فاه على فيه، فلا يقرأ آية إلا كانت في جوف الملك".
(السنن الكبرى للبيهقي، باب تأكيد السواك عند القيام إلى الصلاة، رقم الحدیث:162، ج:1 / ص:62، ط: دار الكتب العلمية بيروت)
الزہدوالرقائق لابن المبارک کی روایت:
"عن أبي عبد الرحمن السلمي قال: أمر علي بالسواك، وقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن العبد إذا تسوك ثم قام يصلي، قام الملك خلفه يستمع القرآن، فلا يزال عجبه بالقرآن يدنيه منه، حتى يضع فاه على فيه، فما يخرج من فيه شيء من القرآن إلا صار في جوف الملك، فطهروا أفواهكم".
(الزهد والرقائق لابن المبارك، باب فضل ذكر الله عز وجل، رقم الحدیث:1225، ص:435، ط:مجلس إحياء المعارف)
وقال المنذري في الترغيب عن هذا الحديث:
"رواه البزار بإسناد جيد لا بأس به".
(الترغيب والترهيب للمنذري، الترغيب في السواك وما جاء في فضله، ج:1 / ص:167، :ط:دار إحياء التراث العربي بيروت)
وقال الهيثمي عنه:
"رواه البزار ورجاله ثقات".
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، باب ماجاء في السواك، ج:2 / ص:99، ط: مكتبة القدسي، القاهرة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144309101160
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن