بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حدیث: ’’روئے زمین پر سب سے بہتر پانی آب زمزم ہے جو بھوکے کے لیے غذا اور بیماری کے لیے شفا ہے‘‘ کی تخریج


سوال

کیا یہ حدیث، احادیث کی کتابوں میں موجود ہے؟

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: روئے زمین پر سب سے بہتر پانی آبِ زم زم ہے، جو بھوکے کے لیے غذا اور بیماری کے لیے شفا ہے‘‘۔

جواب

سوال میں آپ نے جس حدیث کے متعلق دریافت کیا ہے، یہ حدیث" المعجم الكبير للطبراني"،"المعجم الأوسط للطبراني"،"صحيح ابن حبان"،"المصنف لعبد الرزاق"،"مجمع الزوئد ومنبع الفوائد ودیگر کتبِ احادیث میں مذکور ہے۔البتہ آپ  نے جوترجمہ ذکرکیاہے، اس میں ’’جو بھوکے کے لیے غذا‘‘ کے الفاظ ،حدیث کے الفاظ  کاترجمہ تو نہیں، لیکن مفہوم اورمراد ہوسکتی ہے ۔ 

"المعجم الكبير للطبراني" کی  روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں:

"حدّثنا مُوسى بن هارون وعليُّ بن سعيدٍ الرازيُّ قالا: ثنا الحسنُ بن أحمدَ بن أبي شُعيب الحرَّانيُّ، ثنا مِسكين بن بُكير، ثنا محمَّد بن مُهاجرٍ عن إِبراهيمَ بنِ أبي حَرّة عن مُجاهدٍ عن ابنِ عبّاسٍ -رضي الله عنهما- قال: قال رسولُ الله صلّى الله عليه وسلّم: خيرُ ماءٍ عَلى وجهِ الأَرض ماءُ زمزم، فيه طَعامٌ مِن الطُّعْم، وشِفاءٌ مِن السُّقْم ... إلخ".

(المعجم الكبير للطبراني، 11/98، رقم:11167، ط: مكتبة ابن تيمية-القاهرة)

ترجمہ:

’’حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: روئے زمین پر سب سےبہترین پانی آبِ زم زم ہے،جس میں کھانے کے لیے غذائیت بھی ہےاوربیماری کے لیے شفا  بھی ہے ‘‘۔

حافظ نورالدین ہیثمی رحمہ اللہ"مجمع الزوئد ومنبع الفوائد"میں مذکورہ حدیث ذکرکرنے کے بعد لکھتے ہیں:

"رَواهُ الطَّبرانيُّ في الكبير، ورِجالُه ثِقاتٌ، وصحَّحه ابنُ حِبَّان".

ترجمہ:

’’اس حدیث کو (امام )طبرانی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے، اور اس کے تمام رجال (راوی) ثقہ ہیں،حافظ ابنِ حبان رحمہ اللہ نے بھی اس کوصحیح قراردیا ہے‘‘۔

(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، كتاب الحج، باب في زمزم، 3/286، رقم:5712، ط:مكتبة القدسي- القاهرة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502100616

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں