حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص اس حال میں مرا کہ وہ گانے سن رہا تھا تو ایسے شخص کا جنازہ بھی نہ پڑھو ۔
کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ اگر یہ حدیث صحیح ہے تو بتادیں، اور اگر یہ حدیث نہیں ہے تو پھر کس کا قول ہے ؟
سوال میں آپ نے جو الفاظ ذکر کیے ہیں بعینہ انہی الفاظ سے تو ہمیں کوئی حدیث نہیں مل سکی، البتہ کتب ِ تفسیر میں سے"الجامع لأحكام القرآن للقرطبي"، "أحكام القرآن لابن العربي"،کتبِ تخریج وزوائد میں سے"الأحكام الوسطى"،کتبِ فقہ میں سے"المدخل لابن الحاج"،"النجم الوهاج في شرح المنهاج"،"المحلى بالآثار لابن حزم"ودیگر کتب میں اس کے قریب قریب درج ذیل الفاظ میں ایک حدیث مذکور ہے:
"ومِن طريقِ ابن شيبان قال: روى هَاشِم بنُ ناصحٍ وعمر بنِ موسى عن مكحولٍ عن عائشةَ-رضي الله عنها-قالتْ: قال رسولُ الله - صلّى الله عليه وسلّم -: مَن ماتَ وعنده جاريةٌ مُغنّيةٌ فَلا تُصلُّوا عليه".
ترجمہ:
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص اس حال میں فوت ہوکہ اس کے پاس گانا گانے والی عورت ہوتواس کی نمازِ جنازہ نہ پڑھو‘‘۔
(المحلى بالآثار لابن حزم، كتاب البيوع، مسألة بيع آلات اللهو، 7/563، ط: دار الفكر-بيروت/الأحكام الوسطى، کتاب الزينة واللباس، باب(بدون الترجمة)، 4/244، ط:مكتبة الرشد-الرياض)
مذکورہ حدیث ابنِ شیبان سے "هَاشِم بنُ ناصحٍ وعمر بنِ موسى عن مكحولٍ عن عائشةَ-رضي الله عنها-"کے طریق سے مروی ہے۔ حافظ ابنِ حزم رحمہ اللہ"المحلى بالآثار"اس طریق پر کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"هَاشِمٌ وعمرُ مجهولان، ومكحولٌ لم يلقَ عائشة، وحديثٌ لا ندري له طريقاً، إنّما ذكرُوه هكذا مُطلقاً، «أنّ الله - تعالى - نَهى عن صوتينِ ملعونينِ: صوتُ نائحةٍ، وصوتُ مُغنّيةٍ» وهَذا لا شيءَ".
ترجمہ:
’’(مذکورہ حدیث کی سند میں) ہاشم اورعمر دونوں راوی مجہول ہیں،اور(تیسرے راوی ) مکحول کا (حضرت) عائشہ رضی اللہ عنہا سے لقاء ثابت نہیں ۔ اس حدیث کا کوئی اور طریق ہمیں معلوم نہیں ،صرف ان روات نے ہی یوں مطلق ذکر کیا ہے(کہجو شخص اس حال میں فوت ہوکہ اس کے پاس گانا گانے والی عورت ہوتواس کی نمازِ جنازہ نہ پڑھو)۔(البتہ ایک حدیث میں ہے):’’بلاشبہ اللہ تعالی نے دو ملعون(یعنی اللہ کی رحمت سے دور) آوازوں سے منع کیاہے:موت پر نوحہ کرنے والی عورت کی آواز سےاور گانا گانے والی عورت کی آواز سے‘‘۔اس حدیث میں کچھ نہیں(یعنی کوئی کلام نہیں) ‘‘۔
(المحلى بالآثار لابن حزم، كتاب البيوع، مسألة بيع آلات اللهو، 7/563، ط: دار الفكر-بيروت)
علامہ عبد الحق اشبیلی رحمہ اللہ"الأحكام الوسطى"میں لکھتے ہیں:
"مكحولٌ لم يلقَ عائشة، وهَاشِم بنُ ناصحٍ مجهولٌ، وعمر بنُ موسى الذي يروي عن مكحولٍ يُقال إنّه الوجيهيُّ، وكان يضعُ الحديث. ذكره ابنُ أبي حاتمٍ".
ترجمہ:
’’(مذکورہ حدیث کی سند میں ایک راوی ) مکحول کی (حضرت) عائشہ رضی اللہ عنہا سے لقاء ثابت نہیں ،اور(دوسرا راوی) ہاشم بن ناصح مجہول ہے،اور(تیسرا راوی) عمر بن موسی ،جو مکحول سے روایت کررہا ہے،اس کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ اس سے مراد (عمر بن موسی )الوجیہی ہے،یہ حدیث گھڑتا تھا۔یہ بات ابنِ ابی حاتم نے ذکر کی ہے‘‘۔
(الأحكام الوسطى، کتاب الزينة واللباس، باب(بدون الترجمة)، 4/244، ط:مكتبة الرشد-الرياض)
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ حدیث:"مَن ماتَ وعنده جاريةٌ مُغنّيةٌ فَلا تُصلُّوا عليه".(حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص اس حال میں فوت ہوکہ اس کے پاس گانا گانے والی عورت ہوتواس کی نمازِ جنازہ نہ پڑھو) ابنِ شیبان سے "هَاشِم بنُ ناصحٍ وعمر بنِ موسى عن مكحولٍ عن عائشةَ-رضي الله عنها-"کی سند سے مروی ہے، اس سند میں تین علتیں ہیں :
۱۔ مکحول کا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے لقاء ثابت نہیں ہے۔
۲۔ ہاشم بن ناصح مجہول ہے۔
۳۔عمر بن موسی الو جیہی کے متعلق حافظ ابنِ حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ مجہول ہے، اور علامہ عبد الحق اشبیلی رحمہ اللہ، حافظ ابنِ ابی حاتم رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھتےہیں کہ یہ حدیث گھڑتا تھا ۔
پھر اس حدیث کی کوئی اور سند بھی نہیں جو اس کے لیے متابع اور شاہد بن سکے،حافظ ابنِ حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:"وحديثٌ لا ندري له طريقاً".( اس حدیث کا کوئی اور طریق ہمیں معلوم نہیں )؛لہذا جب تک کوئی معتبر سند نہ مل جائے، اسے بیان کرنے سے احتراز کیا جائے۔
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144505101118
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن