بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حدیث:’’ہلاک ہوگیا وہ شخص جس کا کل آج سے بہتر نہیں‘‘ کی تحقیق


سوال

ہلاک ہوگیا وہ شخص جس کا کل آج سے بہتر نہیں۔

یہ حد یث ہے یا نہیں؟

جواب

سوال میں آپ نے جو الفاظ ذکر کیے ہیں، بعینہ انہی الفاظ سے تو ہمیں کوئی حدیث تلاش کے باوجود نہیں مل سکی، البتہ  "إحياء علوم الدين"میں  اس کے قریب قریب درج ذیل  الفاظ   مذکور ہیں:

"قال رسولُ الله- صلّى الله عليه وسلّم-:مَن استوى يوماه فهو مغبونٌ، ومَن كان يومُه شرّاً مِن أمسِه فهو ملعونٌ".

(إحياء علوم الدين، كتاب المحبة والشوق والأنس والرضا، 4/335، ط: دار المعرفة-بيروت)

ترجمہ:

’’ رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس شخص کے دونوں دن برابر ہوں وہ خسارے میں ہے،اور جس کاآنے والا دن پہلے سے برا ہے وہ ملعون(یعنی اللہ کی رحمت سے دور) ہے‘‘۔

حافظ عراقی رحمہ اللہ"المعني عن حمل الأسفار في الأسفار في تخريج ما في الإحياء من الأخبار" میں مذکورہ  حدیث پر کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"لا أعلمُ هذا إلّا في منام لعبد العزيز بن أبي رَوّاد".

(المغني عن حمل الأسفار، كتاب الصبر والشكر، ص:1701، ط: دار ابن حزم-بيروت)

ترجمہ:

’’میں اسے عبد العزیز بن  ابی رواد کے خواب  کی حیثیت سے جانتا ہوں‘‘۔

ملا علی قاری رحمہ اللہ  "المصنوع في معرفة الحديث الموضوع"  میں لکھتے ہیں:

"لا يُعرف إلّا في منام عبد العزيز بن أبي رَوّاد".

(المصنوع، ص:174، رقم:311، ط: مكتب المطبوعات الإسلامية- حلب)

ترجمہ:

’’یہ  عبد العزیز بن ابی رواد کے خواب کی حیثیت سے پہچانی گئی  ہے‘‘۔

علامہ قاوقجی رحمہ اللہ "اللؤلؤ المرصوع في ما لا أصل له أو بأصله موضوع"میں لکھتے ہیں:

لا يُعرف إلّا في المنام لِبعضِهم.

(اللؤلؤ المرصوع، حرف الميم، ص:174، رقم:530، ط: دار البشائر الإسلامية-بيروت)

ترجمہ:

’’یہ کسی ایک شخص کے خواب کی حیثیت سے پہچانی گئی  ہے‘‘۔

علامہ محمد بن طاہر پٹنی رحمہ اللہ"تذكرة الموضوعات"میں لکھتے ہیں:

"لا يُعرف إلّا في منام لعبد العزيز بن رَوّاد". 

(تذكرة الموضوعات، كتاب العلم، ص:22، ط:إدارة الطباعة المنيرية)

ترجمہ:

’’یہ  عبد العزیز بن ابی رواد رحمہ اللہ کے خواب سے پہچانی گئی ہے‘‘۔

۲۔مذکورہ بالا عبارات میں  عبد العزیز بن ابی رواد ر حمہ اللہ کے جس خواب کی طرف اشارہ کیاگیا ہے،"الزهد الكبير للبيهقي"میں اس کی درج ذیل تفصیل مذکور ہے:

"عن عبد العزيز بن أبي رَوّاد قال: رأيتُ النبيَّ- صلّى الله عليه وسلّم- في النوم، فقلتُ: يارسولَ الله! أوصِني، قال: مَن استوى يومَاه فهو مغبونٌ، ومَن كان  يومُه شرّاً مِن أمسِه فهو ملعونٌ، ومَن لم يكنْ على الزّيادة فهو في النٌقصان، ومَن كان في النٌقصان فَالموتُ خيرٌ له، ومَن اشتاق إلى الجنّة سارعَ إلى الخيرات".

(الزهد الكبير، ص:367، رقم:917، ط: دار الجنان-بيروت)

ترجمہ:

’’ عبد العزیز بن ابی رواد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :میں نے خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو میں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! مجھے کچھ وصیت کیجیے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس شخص کے دونوں دن برابر ہوں وہ خسارے میں ہے،اور جس کا آنے والا دن پہلے دن سے برا ہے وہ ملعون(یعنی اللہ کی رحمت سے دور) ہے، اور جس نے( خیر میں) ترقی کی کوشش نہیں کی   وہ نقصان میں ہے، اور جو نقصان میں ہے اس کے لیے موت بہتر ہے،اور جو شخص جنت کا مشتاق ہو وہ بھلائیوں میں جلدی کرے‘‘۔

حافظ ابن ابی الدنیا رحمہ اللہ"المنامات"میں مذکورہ خواب کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"... عَن شيخٍ مِن بني سُليمٍ قال: رأيتُ النبيَّ- صلّى الله عليه وسلّم-في مَنامي ...الخ".

(یعنی اس خواب کا تعلق قبیلہ ’’بنو سُلیم ‘‘کے ایک شیخ سے ہے)۔

(المنامات، ص:116، رقم:243، ط: مؤسسة الكتب الثقافية-بيروت)

 حافظ خطیبِ بغدادی رحمہ اللہ"اقتضاء العلم العمل"میں لکھتے ہیں:

"... عَن رجُلٍ، رأيتُ النبيَّ -صلّى الله عليه وسلّم- في النوم ... إلخ".

(یعنی اس خواب کا تعلق  ایک شخص ِ مبہم سےہے)

(اقتضاء العلم العمل، ص:112، رقم:196، ط: المكتب الإسلامي-بيروت)

حافظ ابو نعیم اصفہانی رحمہ اللہ"حلية الأولياء وطبقات الأصفياء"  میں لکھتے ہیں:

"... بلغني أنّ الحسن البصريَّ، رأى النبيَّ -صلّى الله عليه وسلّم- في منامه ... إلخ.

(یعنی اس خواب کا تعلق حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے ہے)۔

(حلية الأولياء، 8/35، ط: مطبعة السعادة بجوار محافظة مصر)

۳۔شیخ عبد الفتاح ابو غدہ رحمہ اللہ"المصنوع في معرفة الحديث الموضوع"میں مذکورہ   حدیث پر تعلیقاً لکھتے ہیں:

"هذا، ومِن المقرّر عند العلماء أنّ الرؤيا للنبيِّ- صلّى الله عليه وسلّم- لا يثيت بها حكمٌ شرعيٌّ، أيّاً كان الرائيُ مِن الناس، فَبِالأولى أن لايثيتَ بها حديثٌ نبويٌ".

(المصنوع، ص:174، رقم:311، ط: مكتب المطبوعات الإسلامية-حلب)

ترجمہ:

’’اہلِ علم کے ہاں متعین اصول  ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنے سے کوئی شرعی حکم ثابت نہیں ہوتا، چاہے خواب دیکھنا والا لوگوں میں سے کوئی بھی ہو، تو اس سے(یعنی  نبی کریم صلي اللہ علیہ وسلم کو  خواب میں دیکھنےسے) حدیثِ نبوی تو بطریقِ اولي ثابت نہیں ہوگی ‘‘۔

خلاصہ کلام:

حافظ عراقی، ملا علی قاری،علامہ محمد بن طاہر پٹنی  رحمہم اللہ   کی تصریح کے مطابق حدیث:"مَن استوى يوماه فهو مغبونٌ ... إلخ"  ’’عبد العزیز بن ابی رواد رحمہ اللہ ‘‘کے خواب کی حیثیت سے پہچانی گئی ہے،حافظ  ابنِ ابی الدنیا رحمہ اللہ  کی تصریح کے مطابق اس کا تعلق ’’قبیلہ بنو سلیم کے ایک شخص‘‘ کے خواب سےہے، حافظ ابو نعیم اصفہانی   رحمہ اللہ نے اسے ’’حضرت حسنِ بصری رحمہ اللہ ‘‘کا خواب قراردیا ہے،علامہ قاوقجی  اور حافظ خطیب بغدادی رحمہا اللہ سے  ’’ ایک مبہم شخص ‘‘ کا خواب  ہونا منقول ہے۔

بہرحال! یہ تمام حضرات اس پر متفق ہیں کہ حدیث:"مَن استوى يوماه فهو مغبونٌ ... إلخ"کسی کے خواب کی حیثیت سے پہچانی  گئی ہے۔اہلِ علم کے ہاں متعین اصول  ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھنے سے کوئی شرعی حکم ثابت نہیں ہوتا، چاہے خواب دیکھنا والا لوگوں میں سے کوئی بھی ہو، تو  نبی کریم صلي اللہ علیہ وسلم کو  خواب میں دیکھنےسے حدیثِ نبوی تو بطریقِ اولي ثابت نہیں ہوگی ، لہذا مذکورہ    حدیث کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے بیان کرنے سے احتراز کرناچاہیے۔البتہ اسے  عبد العزیز بن ابی رواد ،حضرت حسن بصری  رحمہما اللہ وغیرہ کے خواب کی حیثیت سے بیان کیا جاسکتا ہے۔

ملحوظ:

علامہ زرکشی، حافظ سخاوی   اور حافظ سیوطی رحمہم اللہ نے مذکورہ حدیث بحوالہ"مسند الفردوس للديلمي" درج ذیل الفاظ میں ذکر کی ہے:

"مَن استوى يَوماه فهو مغبونٌ، ومَن كان آخرُ يومِه شهراً فهو ملعونٌ، ومَن لم يكنْ على الزّيادة فهو في النُّقصان، فَالموت خيرٌ له، ومَن اشتاق الى الجنّة سارعَ الى الخيرات، ومَن أشفق مِن النار لَها عن الشّهوات، ومَن ترقّب الموت هانَ عليه اللّذاتُ، ومَن زهدَ في الدُّنيا هانتْ عليه المصيباتُ".

ترجمہ:

’’جس شخص کے دونوں دن برابر ہوں وہ خسارے میں ہے،او رجس کا آخری دن شر میں گزرا وہ ملعون(یعنی اللہ کی رحمت سے دور) ہے،اور جس نے( خیر میں) ترقی کی کوشش نہیں کی  وہ نقصان میں ہے،اس کے لیے موت بہتر ہے،جو شخص جنت  کا مشتاق ہو وہ بھلائیوں میں جلدی کرے، جو شخص آگ سے بچنا چاہے وہ خواہشات  چھوڑدے ،جو شخص موت کا منتظر ہو اس کے لیے دنیا کی لذتیں ہلکی ہوجاتی ہیں، جو دنیا سے بے رغبتی اختیار کرے اسے مصیبتیں ہلکی معلوم ہونے لگتی ہیں‘‘۔

پھر مذکورہ حدیث کا حکم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"أسنده صاحبُ "مسند الفردوس" مِن حديث محمد ابن سُوْقة عن الحارث عن عليٍّ مرفوعاً، وهو اسنادٌ ضعيفٌ".

ترجمہ:

’’صاحبِ’’مسندِ فردوس‘‘ نےاس حدیث کو"محمد بنُ السُوقة عن الحارث عن علي -رضي الله عنه-" کی سند سے مرفوعاً بیان کیا ہے، اور یہ سند ضعیف ہے‘‘۔

(اللآلي المنثورة، الباب الثالث في الزهد، الحديث الرابع والعشرون، ص:138، ط:دار الكتب العلمية-بيروت/المقاصد الحسنة، حرف الميم، رقم:1080، ص:631، ط:دار الكتاب العربي/الدرر المنتثرة، حرف الميم، رقم:376، ص:180، ط: عمادة شؤون المكتبات-الرياض)

"مسند الفردوس للديلمي" تو تاحال دستیباب نہیں ہے۔البتہ حافظ ابو شجاع شیرویہ بن شہردار رحمہ اللہ کی"الفردوس بمأثور الخطاب"میں  مذکورہ پوار متن دو  الگ الگ حدیثوں میں بغیر کسی سند کے مذکور ہے، پہلا حصہ :"مَن استوى يَوماه"سے"فَالموت خيرٌ له"تک  مستقل  حدیث  میں مذکور ہے ، اور دوسرا  حصہ :"ومَن اشتاق إلى الجنّة"سے"هانتْعليهالمصيباتُ"تک مستقل حدیث میں مذکور  ہے۔علامہ زرکشی، حافظ سخاوی   اور حافظ سیوطی رحمہم اللہنےجوسند ذکر کی ہے  وہ دوسرے حصے کی سند ہے،جیساکہ حافظ ابو نعیم اصفہانی رحمہ اللہ نے "حلية الأولياء وطبقات الأصفياء( 5/10، ط: دار الكتب العلمية-بيروت)"میں  دوسرے حصے   کو اس  سند کے ساتھ  ذکر کیا ہے،پہلے حصے کی مذکورہ سند کسی نے بھی ذکر نہیں کی ، معلوم ہوا کہ مذکورہ سند کا تعلق صرف دوسرے حصے سے ہے،لہذا علامہ زرکشی، حافظ سخاوی   اور حافظ سیوطی رحمہم اللہ کےکلام سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ مذکورہ حدیث :"مَن استوى يوماه ... إلخ"حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً ضعیف سند کے ساتھ  موجود ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ سوال میں مذکور الفاظ کسی معتبر سند کے ساتھ حدیث کے طور پر  ثابت نہیں،  لہذا  جب تک کوئی معتبر سند نہ مل جائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ان کی نسبت کرکے بیان کرنے سے احتراز کیا جائے۔ 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505100582

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں