بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حدیث تفترق امتی علی ثلاث و سبعین ملۃ کی تشریح


سوال

زید  کہتا ہے کہ حدیث شریف میں آیا ہے (خلاصہ و مفہوم) ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بنی اسرائیل بہتر (۷۲) فرقوں میں تقسیم ہوئی تھی اور میری امت تہتر (۷۳) فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی، تمام فرقے جہنم میں جائیں گے سوائے ایک فرقے کے، صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جو میرے اور میرے صحابہ کے راستے پر ہوگا۔‘‘ اس حدیث پاک میں جن فرقوں کا جہنم میں جانے کا ذکر کیا گیا ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نہیں ہے بلکہ اپنی سزا پوری کرنے کے بعد پھر جنت میں داخل ہوں گے، کیا زید کا یہ عقیدہ درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔

جواب

شارحین حدیث نے مذکورہ حدیث کی دو تشریحات ذکر کی ہیں:

1۔حدیث میں امت سے مراد ’’امت دعوۃ‘‘(جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا )ہے ،اس صورت میں 72 فرقے اہل کفر میں سے ہوں گے اور وہ سب  ہمیشہ کے لئے جہنم میں جائیں گے۔

2۔امت سے مراد ’’امت اجابۃ‘‘ (جنہوں نے اسلام قبول کرلیا اور ایمان لے آئے )ہے ،اس صورت میں 72 فرقے اہل قبلہ میں سے ہوں گے ،لیکن وہ ایسے عقائد یا اعمال کے مرتکب ہوں گے جو جہنم میں لے جانے کا سبب  ہیں ،پھر ان میں سے کچھ  فرقوں کےعقائد واعمال حد کفر تک پہنچ چکے ہوں گے وہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں رہیں گے اور کچھ کے عقائد  وا عمال حدِ کفر تک نہیں پہنچے ہوں گے تووہ بھی  جہنم میں جائیں گے ،لیکن   اپنی سزا مکمل کرکے اللہ تعالی کی رحمت سے جنت میں چلے جائیں گے ۔

حاصل یہ ہے کہ سوال میں مذکور زید کا  مطلقا یہ کہنا  کہ ’’تمام فرقے جہنم میں جائیں گے اور پھر اپنی سزا کا ٹ کر جنت میں چلےجائیں گے‘‘،درست نہیں ہے۔

وفي شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن:

"المراد ((بالأمة)) من تجمعهم دائرة الدعوة من أهل القبلة لأنه أضافهم إلى نفسه، وأكثر ما ورد في الحديث على هذا الأسلوب فإن المراد منه أهل القبلة، ولو ذهب إلى أن المراد أمة الدعوة فله وجه، وحينئذ يتناول أصناف أهل الكفر. والملة في الأصل ما شرع الله تعالى لعباده على ألسنة الأنبياء، ليتوصلوا به إلى جوار الله، ويستعمل في جملة الشرائع دون آحادها، ثم اتسعت فاستعملت في الملل الباطلة، فقيل: الكفر كله ملة واحدة. والمعنى أنهم يفترقون فرقا يتدين كل واحد منها بخلاف ما تتدين به الأخرى، فسمى طريقتهم ملة مجازا.

وإذا حمل الملة على أهل القبلة فمعنى قوله: ((كلهم في النار)) أنهم متعرضون لما يدخلهم النار من الأفعال الردية.أو المعنى أنهم يدخلونها بذنوبهم، ثم يخرج منها من لم تفض به بدعته إلى الكفر برحمته."

(كتاب الإيمان،باب الاعتصام بالكتاب والسنة،2/ 639،الناشر: مكتبة نزار مصطفى الباز)

وفي مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح:

"وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين ملة) ، قيل: فيه إشارة لتلك المطابقة مع زيادة هؤلاء في ارتكاب البدع بدرجة، ثم قيل: يحتمل أمة الدعوة فيندرج سائر الملل الذين ليسوا على قبلتنا في عدد الثلاث والسبعين، ويحتمل أمة الإجابة فيكون الملل الثلاث والسبعون منحصرة في أهل قبلتنا، والثاني هو الأظهر، ونقل الأبهري أن المراد بالأمة أمة الإجابة عند الأكثر (كلهم في النار) : لأنهم يتعرضون لما يدخلهم النار فكفارهم مرتكبون ما هو سبب في دخولها المؤبدة عليهم ومبتدعتهم مستحقة لدخولها إلا أن يعفو الله عنهم."

 (كتاب الإيمان،باب الاعتصام بالكتاب والسنة،1/ 259،الناشر: دار الفكر، بيروت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144412100949

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں