بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حدیث کی کلاس کے دوران اذان کے جواب کا حکم


سوال

قرآن مجید کی تفسیر کی کلاس اور حدیث کی کلاس کے دوران اذان کے جواب کا کیا حکم ہے؟

جواب

قرآن مجید کی تفسیر اور حدیث کی کلاس  جاری ہو اور  اس دوران اذان ہوجائے تو اس صورت میں   تفسیر اور حدیث کا درس روکنا ضروری نہیں ،بلکہ درس بدستور جاری رکھا جاسکتا ہے، البتہ اگر  کوئی قرآنِ کریم کی تلاوت  کررہا ہو تو  اس کیلئے بہتر یہ ہے کہ وہ تلاوت مؤخر کرکے  پہلے  اذان کا جواب دے۔

فتاویٰ شامی میں ہے: 

"(ويجيب) وجوبا، وقال ‌الحلواني ‌ندبا، والواجب الإجابة بالقدم (من سمع الأذان) ولو جنبا لا حائضا ونفساء وسامع خطبة وفي صلاة جنازة وجماع، ومستراح وأكل وتعليم علم وتعلمه،بخلاف قرآن.

وفي الرد:(قوله: بخلاف قرآن) لأنه لا يفوت، جوهرة، ولعله لأن تكرار القراءة إنما هو للأجر فلا يفوت بالإجابة، بخلاف التعلم، فعلى هذا لو يقرأ تعليما أو تعلما لا يقطع سائحاني."

(كتاب الصلاة، باب الأذان، ج: 1، ص: 396، ط: سعيد)

خیر الفتاویٰ میں ہے:

’’تلاوتِ قرآن کرتے ہوئے اگر اذان شروع ہوجائے تو جواب دینا ضروری ہے یا تلاوت جاری رکھے؟

الجواب: اگر تعلیم و تعلّم کے لیے پڑھ رہے ہوں تو قرأت جاری رکھیں اور اگر صرف تلاوت کررہے ہیں تو تلاوت کو روک کر پہلےاذان کا جواب دیں ،فارغ ہو نے کے بعد پھر تلاوت شروع کردیں۔‘‘

( عنوان: قرآن کا درس پڑھنے کے دوران اذان ہوجائے تو جواب کاحکم،ج:۲،ص:۲۳۰،ط:امدادیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101614

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں