بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حدیث کا مفہوم اور راوی کا نام


سوال

 ان الله يحب أن يري أثر نعمته على عبده اس کا مفہوم کیا ہے؟ نیز حوالہ اور راوی کا نام بھی بتا دیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ روایت ترمذی شریف کی ہے،جس کے روایت کرنے والےعمر بن شعیب ہیں،روایت کا مفہوم یہ ہے کہ جب اللہ تعالی بندے کو کوئی نعمت دے تو بندہ  اس نعمت کے اثر کو ظاہر کرے،نعمت کے اظہار کا مقصد شکرگزاری اور اظہار نعمت ہو،اس سے یہ معلوم ہوا کہ نعمت کے ہوتے ہوئے اس کا استعمال نہ کرنا  کفرانِ نعمت کے زمرے میں آتا ہے۔

"ترمذی شریف "میں ہے:

"حدثنا الحسن بن محمد الزعفراني قال: حدثنا عفان بن مسلم قال: حدثنا همام، عن قتادة، عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌إن الله ‌يحب ‌أن ‌يرى ‌أثر نعمته على عبده» وفي الباب عن أبي الأحوص، عن أبيه، وعمران بن حصين، وابن مسعود: «هذا حديث حسن."

(‌‌باب ما جاء إن الله تعالى يحب أن يرى أثر نعمته على عبده، ج:4، ص:510، ط:دار الغرب الإسلامي)

"مرقاۃ المفاتیح"میں ہے:

"(وعن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: (‌إن الله ‌يحب ‌أن ‌يرى) : بصيغة المجهول أي يبصر ويظهر (‌أثر نعمه) : أي إحسانه وكرمه تعالى (على عبده) : فمن شكرها إظهارها، ومن كفرانها كتمانها. قال المظهر: يعني إذا آتى الله عبدا من عباده نعمة من نعم الدنيا فليظهرها من نفسه، بأن يلبس لباسا يليق بحاله، لإظهار نعمة الله عليه، وليقصده المحتاجون لطلب الزكاة والصدقات، وكذلك العلماء يظهروا علمهم ليستفيد الناس منهم اهـ.

فإن قلت: أليس أنه حث على البذاذة؟ قلت: إنما حث عليها لئلا يعدل عنها عند الحاجة، ولا يتكلف للثياب المتكلفة كما هو مشاهد في عادة الناس، حتى في العلماء والمتصوفة، فأما من اتخذ ذلك ديدنا وعادة مع القدرة على الجديد والنظافة، فلا ; لأنه خسة ودناءة، ويؤيد ما ذكرنا ما رواه البيهقي، عن أبي هريرة، عنه - صلى الله عليه وسلم: «‌إن الله تعالى ‌يحب المؤمن المتبذل الذي لا يبالي ما لبس» " (رواه الترمذي) : وكذا الحاكم عن ابن عمر."

(كتاب اللباس، ج:7، ص:2783، ط:دارالفكر)

"مظاهر حق "میں ہے:

"جب اللہ تعالی  بندے کو نعمت دے تو اس کو ظاہر کرے یعنی اسراف ومبالغہ چھوڑ کر وہ کپڑے پہنے  جو اس کی حالت کے مناسب ہوں اس کا مقصوداظہارِ نعمت اور شکر گزاری ہو،تاکہ صدقات وعطیات کے لیے لوگ اس کی طرف آئیں تکبر کی بنا پر نہیں،اس سے معلوم ہوا کہ نعمت کا چھپانا جائز نہیں،،گویا یہ کفرانِ نعمت ہے،اور اسی طرح جو نعمت اللہ تعالی بندہ کو دے مثلاً علم وفضل تو اسے بھی ظاہر کرنا چاہیے تاکہ لوگ اس سے فائدہ حاصل کرسکیں۔"

(لباس کا بیان، ج:4، ص:186، ط:مکتبۃ العلم)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144405101397

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں