بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

حدیث دعوتِ ذوالعشیرہ کی حقیقت


سوال

دعوتِ ذوالعشیرہ کی حقیقت بیان کیجیے۔ شیعہ کہتے ہیں کہ نبی کریم نے اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وصی اور خلیفہ مقرر کیاتھا۔ اور یہ روایت سنن نسائی میں بھی ہے ، کیایہ درست ہے؟

جواب

شیعہ حضرات جن روایتوں سےحضرت علی رضی اللہ کی خلافت بلافصل پراستدلال کرتےہیں ان میں سےایک روایت دعوتِ ذوالعشیرہ ہے، اس کا پس منظرشیعہ حضرات یہ بیان کرتےہیں کہ جب قرآن کی آیت {وانذر عشیرتک الاقربین} نازل ہوئی تو اللہ کے رسول ﷺنے اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے رشتہ داروں کو کھانے کی دعوت دی،  اور اس میں ان  کواسلام کی دعوت دی،  آپ کی دعوت پر حضرت علی  رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی نے لبیک نہ کہا۔ آپ ﷺ  نے فرزندان عبد المطلب کو مخاطب کرکے فرمایا:اےفرزندانِ عبدالمطلب!" میں تمہارےلیےدنیاوآخرت کی بھلائی لایاہوں، خدانےمجھےحکم دیاہےکہ تمہیں اس کی طرف بلاؤں! پس کون ہےجومیرااس کام میں پشت پنائی کرے؟کسی نے جواب نہیں دیا؛ حضرت علی  رضی اللہ عنہ جو سب سے چھوٹے تھے، اٹھے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ کی پشت پناہی کروں گا۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی  رضی اللہ عنہ   کےشانے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا:"إِنَّ هَذَا أَخِی وَ وَصِیی وَ خَلِیفَتِی فِیکُمْ فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِیعُوا"یہ  میرے بھائی، میرے وصی اور تمھارے درمیان میرے جانشین اور خلیفہ ہیں، پس ان کی بات سنو اور ان کی اطاعت کرو۔

یہ روایت سنن نسائی میں توہمیں نہیں ملی، اورنہ ہی حدیث کی کسی معتمدکتاب میں اس کا ذکرموجودہے، البتہ کنزالعمال میں اوراس کےعلاہ بعض دیگرغیرمعروف کتب میں اس کاتذکرہ ملتا ہے مگر سند كے ضعف كی نشان دہی کےساتھ کہیں اختصارکےساتھ اورکہیں تفصیل کےساتھ ملتاہے، نیزروایت کےذکرکردہ حصےکےبارےمیں  علامہ ابن کثیرؒ  فرماتےہیں کہ "اس میں عبدالغفارابن القاسم ابن ابی مریم کاتفردہے، جب کہ وہ متروک الحدیث ، جھوٹا اوررافضی ہے، علی ابن المدینی ؒنےاس کووضعِ حدیث(حدیث گھڑنا)کےساتھ متہم کیاہےاورائمہ حدیث رحمہم اللہ نےاس کی تضعیف کی ہے"۔لہذااس حدیث سےحضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلافصل پراستدلال کرنادرست نہیں۔

کنز العمال میں ہے:

"عن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا بني عبد المطلب! إني قد جئتكم بخير الدنيا والآخرة وقد أمرني الله أن أدعوكم إليه فأيكم يؤازرني على هذا الأمر على أن يكون أخي ووصيي ‌وخليفتي ‌فيكم؟ قال: فأحجم القوم عنها جميعا وقلت: يا نبي الله! أكون وزيرك عليه؟ فأخذ برقبتي ثم قال: هذا أخي ووصيي ‌وخليفتي ‌فيكم، فاسمعوا له وأطيعوا. "ابن جرير وفيه عبد الغفار بن القاسم، قال في المغنى، تركوه."

(كتاب الفضائل، باب فضائل الصحابة، ج:13، ص:14، ط:مؤسسة الرسالة)

تفسیرابن کثیرمیں ہے:

"وقد رواه أبو جعفر بن جرير، عن ابن حميد، عن سلمة، عن ابن إسحاق، عن عبد الغفار بن القاسم، عن المنهال بن عمرو، عن عبد الله بن الحارث، عن ابن عباس، عن علي بن أبي طالب، فذكر مثله، وزاد بعد قوله: "إني جئتكم بخير الدنيا والآخرة". "وقد أمرني الله أن أدعوكم إليه، فأيكم يؤازرني على هذا الأمر على أن يكون أخي، وكذا وكذا"؟ قال: فأحجم القوم عنها جميعا، وقلت -وإني لأحدثهم سنا، وأرمصهم عينا، وأعظمهم بطنا، وأحمشهم ساقا. أنا يا نبي الله، أكون وزيرك عليه، فأخذ يرقبني ثم قال: "إن هذا أخي، وكذا وكذا، فاسمعوا له وأطيعوا". قال: فقام القوم يضحكون ويقولون لأبي طالب: قد أمرك أن تسمع لابنك وتطيع .

تفرد بهذا السياق عبد الغفار بن القاسم أبي مريم، وهو متروك كذاب شيعي، اتهمه علي بن المديني وغيره بوضع الحديث، وضعفه الأئمة رحمهم الله."

(سورة‌‌ الشعراء، الآیۃ:۲۱۴، ج:6، ص:168، ط:دارطیبة)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144603101153

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں