بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

حدِ قذف کی وضاحت


سوال

حد قذف کیا ہے؟

جواب

دنیا میں امن و امان قائم رکھنے اور  جرائم کی روک تھام کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان جرائم کے ارتکاب پر اخروی عذاب کے ساتھ کچھ دنیاوی سزائیں بھی مقرر ہیں، جنہیں ’’حدود‘‘ کہا جاتا ہے۔ شریعت میں حدود  اُن متعین سزاؤں کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے طور پر مقرر کی ہوں ، کسی بھی شخص کو یہ اختیار نہیں کہ وہ  ان  سزاؤں میں ترمیم یا تبدیلی کرے۔

’’حدِ قذف‘‘ بھی اللہ تعالی کی جانب سے مقرر کردہ ایک سزا ہے،’’قذف‘‘عربی زبان میں تہمت لگانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، یاد رہے کہ  کسی پاک دامن شخص کی طرف صراحتاً یا دلالتاً زنا کی نسبت کرنا یا زنا کی تہمت لگانا حرام اور کبیرہ گناہ ہے اور اس جرم کے مرتکب کے لیے شرعاً جو سزا مقرر ہے اسے ’’حدِ قذف‘‘ کہتے ہیں۔ اگر یہ تہمت لگانے والا آزاد ہو تو اس کی سزا 80 اَسی کوڑے  اور اگر وہ غلام ہو تو اس کی سزا 40 چالیس کوڑے ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

{وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ}  [سورة النور:4]

ترجمہ: ’’اور جو لوگ (زنا کی) تہمت لگائیں پاک دامن عورتوں کو اور پھر چار گواہ (اپنے دعوے پر) نہ لاسکیں تو ایسے لوگوں کو اَسی درے لگاؤ اور ان کی گواہی قبول مت کرو (یہ تو دنیا میں ان کی سزا ہوئی) اور یہ لوگ (آخرت میں بھی) مستحق سزا ہیں اس وجہ سے کہ فاسق ہیں ۔‘‘ (بیان القرآن)

صحيح البخاري (ج:4، ص:10، ط:دار طوق النجاة ):

’’عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «اجتنبوا السبع الموبقات»، قالوا: يا رسول الله وما هن؟ قال: «الشرك بالله، والسحر، و قتل النفس التي حرم الله إلا بالحق، و أكل الربا، و أكل مال اليتيم، و التولي يوم الزحف، و قذف المحصنات المؤمنات الغافلات».‘‘

ترجمہ: ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: (لوگو) سات ہلاک کردینے والی باتوں سے بچو۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ! وہ سات ہلاک کرنے والی باتیں کون سی ہیں؟ فرمایا: (1)کسی کو اللہ کا شریک ٹھہرانا، (2)جادو کرنا، (3)جس جان کو مار ڈالنا اللہ نے حرام قرار دیا ہے اس کو ناحق قتل کرنا، (4)سود کھانا، (5)یتیم کا مال کھانا، (6)جہاد کے دن دشمن کو پیٹھ دکھانا، (7)پاک دامن ایمان والی اور بے خبر عورتوں کو زنا کی تہمت لگانا۔‘‘

(مظاہر حق جدید)

الهداية في شرح بداية المبتدي (ج:2، ص:339، ط:دار احياء التراث العربي):

’’كتاب الحدود: قال: الحد لغة هو المنع ومنه الحداد للبواب وفي الشريعة هو العقوبة المقدرة حقا لله تعالى حتى لا يسمى القصاص حدا لأنه حق العبد ولا التعزير لعدم التقدير والمقصد الأصلي من شرعه الانزجار عما يتضرر به العباد والطهارة ليست أصلية فيه بدليل شرعه في حق الكافر.‘‘

و فيه أيضاً (ج:2، ص:355):

’’باب حد القذف: وإذا قذف الرجل رجلا محصنا أو امرأة محصنة بصريح الزنا وطالب المقدوف بالحد حده الحاكم ثمانين سوطا إن كان حرا، لقوله تعالى: {وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ} إلى أن قال {فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً}  الآية والمراد الرمي بالزنا بالإجماع وفي النص إشارة إليه وهو اشتراط أربعة من الشهداء إذ هو مختص بالزنا ويشترط مطالبة المقذوف لأن فيه حقه من حيث دفع العار وإحصان المقذوف لما تلونا.‘‘

البناية شرح الهداية  (ج:6، ص:362، ط:دار الكتب العلمية):

’’[باب حد القذف] [قذف الرجل رجلا محصنا أو امرأة] م: (باب حد القذف) ش: أي هذا باب في بيان حكم حد القذف، وهو في اللغة: الرمي، وفي اصطلاح الفقهاء: نسبة من أحصن إلى الزنا صريحا أو دلالة، فكأن القاذف وضع حجر القذف في مقدمة لسانه ورمى إلى المقذوف، والقذف من الكبائر بإجماع الأئمة، لقوله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اجتنبوا الموبقات، قيل: ما هن يا رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قال: الشرك بالله، والسحر، وقتل النفس التي حرمها الله، وأكل الربا، وأكل مال اليتيم، والتولي يوم الزحف، وقذف المحصنات المؤمنات الغافلات» متفق عليه.‘‘

فقط و الله اعلم


فتوی نمبر : 144206201483

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں