بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اخلاص کے ساتھ کیے جانے والے عمل میں بعد میں ریا اور نمود کا آنا


سوال

 جو عمل اخلاص کے ساتھ کیا جاۓ لیکن بعد میں اس میں اگر ریا و نمود آگیا تو کیا وہ عمل ضائع ہو جا ۓ گا ؟ اور جب کوئی کسی نیکی کی شاباش دے یا تعریف کرے تو  دل  میں  ایک مسرت و خوشی محسوس ہوتی ہے اس کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ کیا تھوڑا سا بھی اگر خوش ہولیا تو عمل کے ضائع ہونے کا خدشہ ہوتا ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  اگر عمل کو ابتداء سے لے کر آخر تک  اخلاصِ نیت کے ساتھ کیاگیا ہو اور  عمل سے پہلے اور عمل کے دوران ریاء اور نمود  اس میں شامل نہ ہو بلکہ عمل کرنے کے بعد اس عمل میں ریاء اور نمود آگیا ہو تو اس صورت میں عمل تو ضائع نہیں ہوگا لیکن  عمل کرنے والاریاء اور نمود کی وجہ سے گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوکر سخت گناہ گار ہوگا ،  اس پر توبہ و استغفار لازم ہے اور اسی طرح اگر کوئی شخص خالص اللہ کے لیے کوئی عمل کرے اور اس عمل پر کسی سے تعریف و توصیف کا طلب گار  بھی نہ ہو اور  لوگوں نے اس کے اس عمل پراس کی تعریف و توصیف کی جس پر عمل کرنے والے نے دل میں خوشی اور مسرت  محسوس کی اور وہ اس سے خوش ہوا تو اس صورت میں عمل کرنے والے کا عمل ضائع نہیں ہوگا بلکہ لوگوں کی طرف سے یہ تعریف و توصیف اللہ کاانعام ہے اس عمل کرنے والے پر، ایسی صورت میں الحمدللہ کہنا چاہیے۔

تفسیر روح المعانی میں ہے:

"ومقابل الإخلاص الرياء، وذكر سليمان الداراني ثلاث علامات له. الكسل عند العبادة في الوحدة، والنشاط في الكثرة، وحب الثناء على العمل."

(سورۃ البقرۃ، الآية:137سے 141، ج:1، ص:397، ط:دار الكتب العلمية بيروت)

وفیه أیضاً:

"وأجيب بما أشار إليه في الأحياء من أن العمل لا يخلو إذا عمل من أن ينعقد من أوله إلى آخره على الإخلاص من غير شائبة رياء وهو الذهب المصفى أو ينعقد من أوله إلى آخره على الرياء وهو عمل محبط لا نفع فيه أو ينعقد من أول أمره على الإخلاص ثم يطرأ عليه الرياء وحينئذ لا يخلو طروه عليه من أن يكون بعد تمامه أو قبله والأول غير محبط لا سيما إذا لم يتكلف إظهاره إلا أنه إذا ظهرت رغبة وسرور تام بظهوره يخشى عليه لكن الظاهر أنه مثاب عليه والثاني وهو المراد هنا فإن كان باعثا له على العمل ومؤثرا فيه فسد ما قارنه وأحبطه ثم سرى إلى ما قبله."

(سورۃ الکھف، الآية:86 سے 110، ج:8، ص:374، ط:دار الکتب العلمیۃ بیروت)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قال الله تعالى: أنا أغنى الشركاء عن الشرك من عمل عملا أشرك فيه معي غيري تركته وشركه " وفي رواية: فأنا منه بريء هو للذي عمله ". رواه مسلم"

(کتاب الرقاق، باب الریاء و السمعۃ، الفصل الاول، ج:3، ص:1462، ط:المکتب الاسلامی بیروت)

وفیه أیضاً:

"وعن أبي ذر قال: قيل لرسول الله صلى الله عليه وسلم: أرأيت الرجل يعمل الخير ويحمده الناس عليه. وفي رواية: يحبه الناس عليه قال: «تلك عاجل بشرى المؤمن. رواه مسلم"

(کتاب الرقاق، باب الریاء و السمعۃ، الفصل الاول، ج:3، ص:1462، ط:المکتب الاسلامی بیروت)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المفاتیح میں ہے:

" (وعن أبي ذر قال: قيل لرسول الله صلى الله عليه وسلم: أرأيت) أي: أخبرني كما قاله شارح، فقوله: (الرجل يعمل العمل) مبتدأ وخبر في محل النصب، وقال الطيبي رحمه الله: أي: أخبرنا بحاله، فالرجل منصوب بنزع الخافض، والمراد بالعمل جنسه، وقوله: (من الخير) بيان له، ومن المعلوم أن لا خير في العمل للرياء فيكون عمله خالصا (ويحمده الناس عليه) أي: يثنونه على ذلك العمل، أو على ذلك الخير (وفي رواية: ويحبه الناس) أي: يعظمونه (عليه) أي: على ذلك الخير أو لأجل ذلك العمل (قال: " تلك ") أي: المحمدة، أو المحبة، أو الخصلة، أو المثوبة (" عاجل بشرى المؤمن ") أي: معجل بشارته، وأما مؤجلها فباق إلى يوم آخرته، وظاهره أنه يستوي فيه أنه يعجبه حمدهم ومحبتهم أولا، والثاني أولى، والأول أظهر، وسيجيء التصريح به في حديث أبي هريرة من الفصل الآتي. قال المظهر: أي أخبرنا بحال من يعمل عملا صالحا لله تعالى لا للناس ويمدحونه، هل يبطل ثوابه؟ فقال - صلى الله تعالى عليه وسلم -: " تلك عاجل بشرى المؤمن " يعني: هو في عمله ذلك ليس مرائيا فيعطيه الله تعالى ثوابين في الدنيا وهو حمد الناس له، وفي الآخرة ما أعد له. (رواه مسلم)"

(كتاب الرقاق، باب الرياء و السمعة، ج:8، ص:3333، ط:دار الفكر بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101334

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں