بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حبسِ مبیع کے دوران بائع کے لیے مبیع سے نفع حاصل کرنا ناجائز ہے


سوال

بائع نے مشتری کو ایک گھر چالیس لاکھ روپے نقد کیش میں فروخت کیا، مشتری نے بائع کو پچیس لاکھ روپے اسی وقت ادا کردیے اور باقی پندرہ لاکھ روپے کے بارے میں کہا کہ کچھ دنوں کے بعد دے دوں گا، اس کا کوئی وقت متعین نہیں کیا، بلکہ بائع کو اختیار ہے، جب چاہے پندرہ لاکھ روپے کا مطالبہ کرسکتا ہے، بائع نے بھی کہا کہ جب آپ کے پاس پندرہ لاکھ نہیں ہیں تو جب تک آپ پندرہ لاکھ نہیں دیتے، اُس وقت تک میں آپ کو اس گھر کا قبضہ نہیں دوں گا اور اس وقت تک مکان سے نفع بھی میں ہی حاصل کروں گا، خواہ رہائش کی صورت میں ہو یا کرایہ کی صورت میں ہو۔

دریافت یہ کرنا ہے کہ:

بائع کے لیے مشتری کو مذکورہ گھر کا قبضہ نہ دینا اور اس کا نفع اپنے لیے رکھنا شرعاً درست ہے یا نہیں؟

مشتری کو پندرہ لاکھ روپے ادا کرنے سے پہلے اس مکان میں تصرف کا اختیار ہے یا نہیں؟ خواہ بیچنے کی صورت میں ہو یا نیا بنانے کی صورت میں ہو۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب تک مشتری بقیہ پندرہ لاکھ روپے بائع کو ادا نہ کردے، اس وقت تک بائع قیمت وصول کرنے کے لیے مذکورہ گھر اپنے پاس روک تو سکتا ہے، لیکن یہ شرط لگانا کہ جب تک مشتری پندرہ لاکھ ادا نہیں کرےگا، اس وقت تک مذکورہ گھر سے نفع بائع حاصل کرتا رہے گا، یہ شرطِ فاسد ہے جو شرعاً ناجائز ہے، مکان فروخت کرنے کے بعد بائع اس گھر میں رہائش اختیار کر کے یا اسے کرایہ پر دے کر (یا کسی بھی طرح) اس سے  نفع حاصل نہیں کرسکتا۔

اسی طرح جب تک مشتری مکمل قیمت ادا کر کے یہ گھر اپنے قبضے میں نہ لے لے، اس وقت تک وہ بھی بائع کی رضامندی کے بغیر اِس گھر میں تصرف نہیں کرسکتا، مشتری اگر یہ مکان آگے فروخت کرنا چاہے تو پہلے مکمل قیمت ادا کر کے یا بائع کی رضامندی سے گھر پر قبضہ کرے، پھر اس کے بعد آگے فروخت کرے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أما حكمه فثبوت الملك في المبيع للمشتري وفي الثمن للبائع إذا كان البيع باتا."

(کتاب البیوع، ج: 3، الباب الاول، ص: 3، ط: مکتبہ رشیدیہ)

و فیہ ایضاً:

"لو بقي من الثمن شيء قليل كان له حبس جميع المبيع كذا في الذخيرة."

(کتاب البیوع، ج: 3، الباب الرابع فی حبس المبیع بالثمن و قبضہ، الفصل الاول فی حبس المبیع بالثمن، ص: 15، ط: مکتبہ رشیدیہ)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"وكما أن للبائع حق حبس المبيع لاستيفاء الثمن، للمرتهن أن يحبس المرهون لاستيفاء الدين إلا أن بين الحبسين فرقا من ثلاثة وجوه: الأول: إذا كان المبيع غائبا فلا يلزم المشتري تسليم الثمن مطلقا لكن إذا كان الرهن غائبا بأن كان في مدينة وكان إحضاره يكلف المرتهن نفقة فليس المرتهن ملزما بإحضار الرهن قبل استيفاء الدين. الثاني: إذا أعار المرتهن الرهن للراهن فلا يبطل حقه في الرهن ولا أن يسترده بعد ذلك ولكن إذا أعار البائع المشتري المبيع أو أودعه إياه يسقط حق البائع في حبس المبيع وليس له استرداده من المشتري. الثالث: إذا نقد المشتري البائع الثمن وقبض المبيع بإذن البائع وتصرف فيه بالبيع أو الهبة أو لم يتصرف فظهر الثمن الذي أداه إلى البائع نقودا زائفة فليس للبائع أن يبطل تصرفات المشتري وأن يسترد المبيع أما المرتهن فله استرداد المبيع في هذه المسألة."

(کتاب البیوع، الباب الخامس فی بیان المسائل المتعلقہ بالتسلیم و التسلم، الفصل الثانی فی المواد المتعلقہ بحبس المبیع، ص: 263، ط: دار الجیل)

فتح القدیر میں ہے:

"(قوله ومن اشترى شيئا مما ينقل ويحول لم يجز له بيعه حتى يقبضه)...أخرج النسائي أيضا في سننه الكبرى عن يعلى بن حكيم عن يوسف بن ماهك عن عبد الله بن عصمة عن حكيم بن حزام قال: قلت يا رسول الله إني رجل أبتاع هذه البيوع وأبيعها فما يحل لي منها وما يحرم؟ قال: لا تبيعن شيئا حتى تقبضه.  رواه أحمد في مسنده وابن حبان."

(کتاب البیوع، باب المرابحۃ و التولیہ، فصل، ج: 6، ص: 511، ط: دار الفکر)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101127

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں