بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حاضر وناظر عقیدہ رکھنے کی وضاحت


سوال

جس شخص کا یہ عقیدہ ہو کہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں تو کیا ایسا شخص مسلمان ہے یا دائرہ اسلام سے خارج ہے ، نیز یہ بھی بتادیں کہ یہ جو ہم لوگ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر و ناظر نہیں ہیں تو اس پر کوئی دلیل بھی دے دیجئے کیونکہ آج کل کچھ لوگ ہیں جنہیں یہ بتایا جائے کہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم حاضر و ناظر نہیں ہیں تو وہ ہم لوگوں پر گستاخ رسول کا فتویٰ لگاتے ہیں ، اس لیے براہ کرم تفصیل سے مدلل جواب عنایت فرما کر میری پریشانی بھی دور فرمائیں اور اس مسئلے کی وضاحت بھی فرما دیں ۔

جواب

اہل ِ سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ ہرجگہ موجود ،حاضرناظر  صرف اللہ تعالی کی ذات ہے،جو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی کے مانند ہرجگہ موجود، حاضرناظرسمجھتے ہیں ان کا یہ عقیدہ درست نہیں ہے۔کیوں کہ  حاضر کے معنی ہیں موجود اور ناظر کے معنی ہیں دیکھنے والا، جب دونوں کو ملاکر استعمال کیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے ”ایسی ہستی جو پوری کائنات کو  بایں طور دیکھ رہی ہے کہ کائنات کا کوئی ذرہ اس کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں“، تمام اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ حاضر وناظر کا مذکورہ بالا مفہوم صرف اللہ جل جلالہ کی ذات پاک پر صادق آتا ہے دوسری كسي ہستی کے لیے ثابت کرنا شرک  ہے،اور اگر اس میں تاویل کرتے ہیں تو گمراہ ہے، اور جو لوگ اس شرکیہ یا گمراہ عقیدہ کا قائل نہیں اس کو گستاخ کہنا درست نہیں بلکہ بے بنیاد الزام ہے۔

حوالہ جات ملاحظہ ہوں:

ارشاد خداوندی ہے:                                       

مندرجہ ذیل آیات میںہر چیز کے علم رکھنے والا اللہ کی ذات واحد ہی ہے، اورہر جگہ حاظر وناظر خاصہ خدواندی قرار دیا گیا ہے۔

ارشاد ربانی ہے:

 " وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ."﴿الحدید :4:

:ترجمہ"اور وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے خواہ تم لوگ کہیں بھی ہو اور وہ تمہارے سب اعمال کو بھی دیکھتا ہے ۔"(  از بیان القرآن)

دوسری جگہ ارشاد باری ہے:

"وَ قَالَ الَّذِینَ كفرُوا لَا تَاتِینَا السَّاعة ؕ قُل بَلٰی وَ رَبِّی لَتَاتِیَنَّکُم ۙ عٰلِمِ الغَیبِ ۚ لَا یَعزُبُ عَنه مِثقَالُ ذَرَّةفِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الاَرضِ وَ لَا اَصغَرُ مِن ذٰلِکَ وَ لَااَكبر اِلَّا فِی كتبٍ مُّبِینٍ."﴿سبأ:٣﴾

ترجمہ :"اور یہ کافر کہتے ہیں کہ ہم پر قیامت نہ آئے گی آپ فرمادیجیئے کہ کیوں نہیں قسم اپنے پروردگار عالم الغیب کی وہ ضرور تم پر آوے گی اس (کے علم) سے کوئی ذرہ برابر بھی غائب نہیں نہ آسمانوں میں اور زمین میں اور نہ کوئی چیز اس (مقدار مذکور) سے چھوٹی ہے اور نہ کوئی چیز (اس سے) بڑی ہے مگر یہ سب کتاب مبین میں (مرقوم) ہے۔" ( از بیان القرآن )

اسی طرح  اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے

"قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ "(الأنعام : 50)
ترجمہ: ”آپ کہہ دیجیے  کہ میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، نہ میں غیب جانتا ہوں، نہ ہی میں تمہیں یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔“ 

سورہ النمل میں ہے:

"قُل لَّا یَعلَمُ مَن فِی السَّمٰوٰتِ وَ الاَرضِ الغَیبَ اِلَّا اللّٰھ ؕ"  (النمل:65) 

ترجمہ: آپ کہہ دیجیے کہ آسمانوں اور زمین میں کوئی بھی غیب نہیں جانتا سوائے اللہ کے۔

سورہ اعراف میں ہے:

"قُل لَّاۤ اَملِکُ لِنَفسی نَفعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰه ؕ وَ لَو کُنتُ اَعلَمُ الغَیبَ لَاستَکثَرتُ مِنَ الخَیۡرِۚ وَ مَا مَسَّنِیَ السُّوءُ ۚۛ اِنۡ اَنَا اِلَّا نَذِیرٌ وَّ بَشِیرٌ لِّقَومٍ یُّؤمِنُونَ "(الأعراف:188) 

ترجمہ: "آپ کہہ دیجیے کہ میں اپنے لیے نہ تو نفع کا مالک ہوں، اور نہ ہی نقصان کا، مگر جو اللہ چاہے، اور اگر میں غیب جانتا تو میں بہت زیادہ خیر حاصل کرتا، اور مجھے برائی چھوتی ہی نہیں، میں تو ڈرانے والا اور خوش خبری دینے والا ہوں ایمان والوں کو۔"(از بیان القرآن)

سورۃ المنافقون میں ہے:

"اذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ (1)اِتَّخَذُوۡۤا اَیۡمَانَهمۡ جُنّة فَصَدُّوا عَن سَبِیلِ اللّٰه ؕ اِنَّهم سَآءَ مَا كانُوا یَعمَلُونَ ﴿۲﴾(سوۃرة المنافقون:1/ 2)

ترجمہ : "جب آپ کے پاس یہ منافقین آتے ہیں (ف ٦) تو کہتے ہیں کہ ہم (دل سے ) گواہی دیتے ہیں کہ آپ بےشک اللہ کے رسول ہیں اور یہ تو اللہ کو معلوم ہے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں (اس میں تو ان کے قول کی تکذیب نہیں کی جاتی) اور (باوجود اس کے ) اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافقین (اس کہنے میں ) جھوٹے ہیں (1)،ان لوگوں نے اپنی قسموں کو (اپنی جان و مال بچانے کے لئے ) سپر بنارکھا ہے پھر یہ لوگ (دوسروں کو بھی ) اللہ کی راہ سے روکتے ہیں بیشک ان کے یہ اعمال بہت ہی برے ہیں ۔"(از بیان القرآن)

یہ سورۃ مزمل ، احزاب، نساء ، حج کے بعد نازل ہوئی جن صورتوں میں چند آیات سے بعض حضرات استدلال کرتے ہیں  ، حالانکہ بعد والی سورت یعنی سورہ منافقون کا شان نزول یوں ہے: حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہم ایک غزوہ میں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے دوران سفر عبداللہ ابن ابی رئیس المنافقین کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہم عزت والے جب مدینہ کو چلے جائیں گے تو ذلت والوں ) یعنی آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نکال دیں گے، حضرت زید نے یہ واقعہ اپنے چچا کو سنایا انہوں نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ نے مجھے بلوا کر سارا واقعہ سنا تو رئیس المنافقین کو بلوایاگیا تو اس نے قسمیں اٹھاکر اپنی صفائی دی تو زید نے فرماتے ہیں:

"فَكَذَّبَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَدَّقَهُ فَأَصَابَنِي هَمٌّ لَمْ يُصِبْنِي مِثْلُهُ قَطُّ."

وہ فرماتے ہیں پھر مجھے میرے چچا نے بھی ملامت کیا، پھر بعدمیں یہ سورت نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلوایااور فرمایا:

"إِنَّ اللَّهَ قَدْ صَدَّقَكَ يَا زَيْدُ."

بخاری شریف میں ہے:

"4900 -حدثنا ‌عبد الله بن رجاء، حدثنا ‌إسرائيل، عن ‌أبي إسحاق، عن ‌زيد بن أرقم قال: «كنت في غزاة، فسمعت عبد الله بن أبي يقول: لا تنفقوا على من عند رسول الله حتى ينفضوا من حوله، ولو رجعنا من عنده ليخرجن الأعز منها الأذل. فذكرت ذلك لعمي أو لعمر، فذكره للنبي صلى الله عليه وسلم، فدعاني فحدثته، فأرسل رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عبد الله بن أبي وأصحابه، فحلفوا ما قالوا، فكذبني رسول الله صلى الله عليه وسلم وصدقه، فأصابني هم لم يصبني مثله قط، فجلست في البيت، فقال لي عمي: ما أردت إلى أن كذبك رسول الله صلى الله عليه وسلم ومقتك؟ فأنزل الله تعالى: {إذا جاءك المنافقون} فبعث إلي النبي صلى الله عليه وسلم فقرأ فقال: إن الله قد صدقك يا زيد{اتخذوا أيمانهم جنة} يجتنون بها."

(صحيح البخاری لأبی عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة ابن بردزبه البخاري الجعفي،كتاب التفسير، ج:6، ص:152، رقم:4900، ط السلطانية)

سورۃ التحریم میں ہے:

"وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثاً فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنْبَأَكَ هَذَا قَالَ نَبَّأَنِي الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ•"(سورۃ التحریم:3)

ترجمہ :"اور جب کہ پیغمبر (علیہ السلام) نے اپنی کسی بی بی سے ایک بات چپکے سے فرمائی  پھر جب اس بی بی نے وہ بات (دوسری بی بی کو ) بتلادی اور پیغمبر کو اللہ تعالیٰ نے (بذریعہ وحی ) اس کی خبر کردی تو پیغمبر نے (اس ظاہر کردینے والی بی بی کو ) تھوڑی سی بات تو جتلادی اور تھوڑی سی بات کو ٹال گئے سو جب پیغمبر نے اس بی بی کو جتلائی وہ کہنے لگی کہ آپ کو اس کی کس نے خبر کردی آپ نے فرمایا کہ مجھ کو بڑے جاننے والے خبر رکھنے والے (یعنی خدا ) نے خبر کردی ۔"( از بیان القرآن)

معلوم ہوا کہ امہات المومنین کا عقیدہ بھی یہی تھا کہ رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں دیکھ نہیں رہے ورنہ وہ کیوں بتاتیں اور یہ کیوں پوچھتیں کہ آپ کو کیسے پتہ چلا۔

سورۃ التوبۃ میں ہے:

"وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِداً ضِرَاراً وَكُفْراً وَتَفْرِيقاً بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَاداً لِمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلاَّ الْحُسْنَى وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ •"(سورۃ التوبۃ،الآیۃ،107)

اور بعض ایسے ہیں جنہوں نے ان اغراض کے لیے مسجد بنائی ہے کہ (اسلام کو) ضرر پہنچائیں اور ( اس میں بیٹھ بیٹھ کر) کفر کی باتیں کریں اور ایمانداروں میں تفریق ڈالیں اور اس شخص کے قیام کا سامان کریں جو اس کے قبل سے خدا و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مخالف ہے اور قسمیں کھا جاویں گے کہ بجز بھلائی کے ہماری کچھ نیت نہیں اور الله گواہ ہے کہ وہ بالکل جھوٹے ہیں ."(از بیان القرآن)

امام جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:

"واللہ ما اردت الاالحسنیٰ وھو کاذب فصدقه رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم."

 (الدر المنثور، لعبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (ت ٩١١هـ)ج:٤،ص، ٢٨٥، ط: دار الفكر - بيروت)

معلوم ہوگیا کہ آپ ہرجگہ دیکھنے والے نہ تھے ورنہ ان کے سارے پرو پیگنڈے کو آپﷺ تو ملاحظہ فرما رہےتھے اور آپ ان کی تصدیق نہ فرماتے۔

سورۃ الانعام میں ہے:

"وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ•"(سورة الانعام:68)

ترجمہ :"اور جب تو ان لوگوں کو دیکھے جو ہماری آیات میں عیب جوئی کررہے ہیں تو ان لوگوں سے کنارہ کش ہوجایہاں تک کہ وہ کوئی اور بات میں لگ جائیں اور اگر تجھ کو شیطان بھلادے  تو یاد آنے کے بعد پھر ایسے ظالم لوگوں کے پاس مت بیٹھ ۔" ( از بیان القرآن)

اور اگر آپ کو شیطان بھلاد ے تو نصیحت کے بعد ظالمین کے پاس مت بیٹھیں۔

پہلی بات…… تو یہ ہے کہ حاضر وناظر اگر خدا بنائے پھر شیطان کیسے آپ کے پاس اس حاضر وناظر ہونے میں حائل ہو سکتا ہے۔

دوسری بات…… یہ ہے کہ اللہ فرماتا ہے ایسی قوم کے پاس آپ بیٹھیں ہی نہیں مگر جب حاضر او رناظر ہوئے پھر تو اس قوم کی طرف آپ دیکھ بھی رہے ہیں اور ان کی باتوں کو سن بھی رہے ہیں تو پھر اس حکم خداوندی کا کیا فائدہ۔

سورۃ بنی اسرائیل میں ہے:

سُبحٰنَ الَّذِي اَسرٰي بِعَبۡدِہٖ لَیلًا مِّنَ المَسجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی المَسجِدِ الاَقصَا الَّذِي بٰرَكنا حَوۡلَه لِنُرِیَه مِن اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّه هوَ السَّمِیعُ البَصِیرُ ﴿(سورة بنی اسرائیل: 1)﴾

ترجمہ :"وہ پاک ذات ہے جو اپنے بندہٴ (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو شب کے وقت مسجد حرام (یعنی مسجد کعبہ سے) مسجد اقصیٰ (یعنی بیت المقدس) تک جس کے گرد  اگرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں لے گیا تاکہ ہم ان کو اپنے کچھ عجائبات قدرت دکھلاویں  بےشک الله تعالیٰ بڑے سننے والے بڑے دیکھنے والے ہیں ۔" ( از بیان القرآن(

سیر کروانے کامطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں دیکھ رہے تھے۔

پیغمبر خدا ﷺ کے حاظر و ناظر نہ ہونے پر چند احادیث  طیبہ ملاحظہ کیجئے:

 بخاری شریف میں ہے:

"حدثنا ‌محمد بن يوسف: حدثنا ‌سفيان عن ‌عاصم عن ‌أبي عثمان عن ‌أبي موسى الأشعري رضي الله عنه قال: «كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌فكنا ‌إذا ‌أشرفنا ‌على ‌واد ‌هللنا ‌وكبرنا ارتفعت أصواتنا فقال النبي صلى الله عليه وسلم: يا أيها الناس اربعوا على أنفسكم فإنكم لا تدعون أصم ولا غائبا إنه معكم إنه سميع قريب تبارك اسمه وتعالى جده."

ترجمہ:"حضرت  ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں ،  کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ جب ہم کسی وادی میں اترتے تو «لا إله إلا الله» اور «الله اكبر» کہتے اور ہماری آواز بلند ہو جاتی اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:: "اے لوگوچلاؤ نہیں آہستگی اور نرمی اختیار کرو؛ کیونکہ تم کسی بہرے یا غائب اللہ کو نہیں پکار رہے ہو۔ وہ تو تمہارے ساتھ ہی ہے۔ بیشک وہ سننے والا اور تم سے بہت قریب ہے۔ برکتوں والا ہے۔ اس کا نام اور اس کی عظمت بہت ہی بڑی ہے۔"

)صحيح البخاری لأبی عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة ابن بردزبه البخاري الجعفی ر،  ج:4، ص:57، رقم:2992،  ط السلطانية(

یعنی اللہ تعالی ہر جگہ حاظر وناظر ہے، یہ وصف ربانی ہے۔

وفیہ أیضاً:  

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
"
حدثنا ‌علي بن عبد الله قال: حدثنا ‌يحيى قال: حدثنا ‌حميد قال: حدثنا ‌بكر، عن ‌أبي رافع، عن ‌أبي هريرة : «أن النبي صلى الله عليه وسلم لقيه في بعض طريق المدينة وهو جنب، فانخنست منه، فذهب فاغتسل، ثم جاء فقال: ‌أين ‌كنت ‌يا ‌أبا ‌هريرة؟. قال: كنت جنبا فكرهت أن أجالسك وأنا على غير طهارة. فقال: سبحان الله، إن المسلم لا ينجس."

)صحيح البخاری لأبی عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة ابن بردزبه البخاري الجعفي،  ج:1، ص:64،  رقم:283،  ط :السلطانية)

 :ترجمہحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ جنابت کی حالت میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے راستوں  میں سے کسی راستے پر انہیں ملے تو وہ کھسک گئے اور جا کر غسل کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تلاش کروایا۔ جب وہ آپ کی خدمت میں آئے تو آپ نے فرمایا: ”ابو ہریرہ! تم کہاں تھے؟“ انہوں نے عرض کی! اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جب آپ مجھے ملے تو میں جنابت کی حالت میں تھا، میں نے غسل کیے بغیر آپ کے پاس بیٹھنا پسند نہ کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللہ! مومن ناپاک (نجس) نہیں ہوتا۔“ (یعنی اس طرح ناپاک نہیں ہوتا کہ اسے کوئی چھو جائے، قریب بیٹھے یا اس سے ہاتھ ملائے تو وہ بھی ناپاک ہو جائے۔)۔"

وفیہ أیضاً:  

"حدثنا ‌عبد الله بن يوسف قال: أخبرنا ‌مالك، عن ‌عبد الرحمن بن القاسم، عن ‌أبيه، عن ‌عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت: «خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض أسفاره، حتى إذا كنا بالبيداء، أو بذات الجيش، ‌انقطع ‌عقد ‌لي، ‌فأقام ‌رسول ‌الله ‌صلى ‌الله ‌عليه ‌وسلم ‌على ‌التماسه وأقام الناس معه........قالت: فبعثنا البعير الذي كنت عليه، فأصبنا العقد تحته."

)صحيح البخاری لأبی عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة ابن بردزبه البخاري الجعفی ر،  ج:1، ص:74، رقم:334،  ط السلطانية(

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار گم ہو گیا اور یہ الفاظ خصوصیت سے ذہن میں رکھیے:

"فأقام ‌رسول ‌الله ‌صلى ‌الله ‌عليه ‌وسلم ‌على ‌التماسه."

کہ آپ علیہ السلام اس ہار کو تلاش کرنے کے لیے رک گئے اب کوئی تاویل نہیں چل سکتی کہ اس لیے رکے تھے کہ پانی نہ ہونے کی صورت میں تیمم کا حکم آجائے۔ یہ معنی نکالنا صریح الفاظ کی خلاف ورزی ہے کیونکہ روایت میں ہار تلاش کرنے کے لیے رکنا صراحتاً آیا ہے،معلوم ہوا کہ آپ اگر پہلے ہی سے دیکھ رہے ہوتے تو ہار کا گرنا اور چھپنا سب آپ کی نظر میں ہوتا۔

وفیہ أیضاً:  

-حدثنا ‌قتيبة بن سعيد قال: حدثنا ‌عبد العزيز بن أبي حازم، عن ‌أبي حازم، ‌عن ‌‌سهل ‌بن ‌سعد ‌قال: «‌جاء ‌رسول ‌الله ‌صلى ‌الله ‌عليه ‌وسلم ‌بيت ‌فاطمة، ‌فلم ‌يجد ‌عليا ‌في ‌البيت ‌فقال: ‌أين ‌ابن ‌عمك؟. ‌قالت: ‌كان ‌بيني ‌وبينه ‌شيء ‌فغاضبني، ‌فخرج ‌فلم ‌يقل ‌عندي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لإنسان: انظر أين هو. فجاء فقال: يا رسول الله، هو في المسجد راقد، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو مضطجع، قد سقط رداؤه عن شقه، وأصابه تراب، فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسحه عنه ويقول: قم أبا تراب، قم أبا تراب۔"

)صحيح البخاری لأبی عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة ابن بردزبه البخاري الجعفي،  ج:1، ص:96، رقم:411، ط:السلطانية(

آپ علیہ السلام کا یہ فرمانا ”این ابن عمک“ آپ کا چچا زاد بھائی کہاں ہے؟۔ یہ بھی آپ علیہ السلا م کے ہر جگہ دیکھنے کی تردید کرتا ہے۔

وفیہ أیضاً:

"حدثنا ‌مسدد، نا ‌بشر، ثنا ‌الجريري. (ح) وحدثنا ‌مؤمل، نا ‌إسماعيل (ح) وحدثنا ‌موسى، نا ‌حماد كلهم عن ‌الجريري ، عن ‌أبي نضرة ، حدثني شيخ من طفاوة قال: «تثويت ‌أبا هريرة بالمدينة فلم أر رجلا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم أشد تشميرا، ولا أقوم على ضيف منه، فبينما أنا عنده يوما وهو على سرير له، ومعه كيس فيه حصى، أو نوى، وأسفل منه جارية له سوداء وهو يسبح بها، حتى إذا نفد ما في الكيس ألقاه إليها فجمعته، فأعادته في الكيس فرفعته إليه، فقال: ألا أحدثك عني وعن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: قلت: بلى. قال: بينا أنا أوعك في المسجد ‌إذ ‌جاء ‌رسول ‌الله ‌صلى ‌الله ‌عليه ‌وسلم ‌حتى ‌دخل ‌المسجد، ‌فقال: ‌من ‌أحس ‌الفتى ‌الدوسي ‌ثلاث ‌مرات..."

)سنن لأبي داود سليمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشير الأزدي السجستاني (ت ٢٧٥)، ج:2، ص:219، رقم:2174، ط: المطبعة الأنصارية بدهلي- الهند(

رحمت کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں داخل ہوتے ہی فرمایا کسی نے دوسی جوان یعنی ابو ہریرہ کو دیکھا ہے یا کسی کو اس کا پتہ ہے کہ وہ کہاں ہے یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر جگہ دیکھنے کی نفی پر صریح دلیل ہے۔

وفیہ أیضاً:  

"حدثنا ‌أحمد بن محمد: أخبرنا ‌عبد الله: أخبرنا ‌شعبة ‌عن ‌‌قتادة ‌سمعت ‌‌أنس ‌بن ‌مالك ‌رضي ‌الله ‌عنه ‌قال: «‌كان ‌بالمدينة ‌فزع ‌فاستعار ‌النبي ‌صلى ‌الله ‌عليه ‌وسلم ‌فرسا ‌لأبي ‌طلحة ‌يقال ‌له ‌مندوب ‌فركبه وقال: ما رأينا من فزع وإن وجدناه لبحرا."

)صحيح البخاری لأبی عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة ابن بردزبه البخاري الجعفي،  ج:4، ص:30،  رقم:2862،  ط :السلطانية(

وفیہ أیضاً:  

"حدثنا ‌عبد الأعلى بن حماد: حدثنا ‌يزيد بن زريع: حدثنا ‌سعيد ‌عن ‌‌قتادة ‌عن ‌‌أنس ‌بن ‌مالك ‌رضي ‌الله ‌عنه: «‌أن ‌أهل ‌المدينة ‌فزعوا ‌مرة ‌فركب ‌النبي ‌صلى ‌الله ‌عليه ‌وسلم ‌فرسا ‌لأبي ‌طلحة ‌كان ‌يقطف ‌أو ‌كان ‌فيه ‌قطاف ‌فلما ‌رجع ‌قال: ‌وجدنا ‌فرسكم ‌هذا ‌بحرا. ‌فكان ‌بعد ‌ذلك ‌لا ‌يجارى."

)صحيح البخاری لأبی عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة ابن بردزبه البخاري الجعفي،  ج:4، ص:31،  رقم:2867،  ط :السلطانية(

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گھوڑا پر تشریف لے جانے دیکھنے کےلیے کہ یہ آواز کیا تھی، یہ بھی آپ کے ہر جگہ حاضر وناظر اور ہر جگہ دیکھنے کی نفی کرتی ہے ورنہ آپ تو وہیں سے بتا دیتے کہ یہ فلاں شے ہے۔

وفیہ أیضاً:  

"حدثنا ‌أبو معمر: حدثنا ‌عبد الوارث: حدثنا ‌عبد العزيز، ‌عن ‌‌أنس ‌رضي ‌الله ‌عنه ‌قال: «‌بعث ‌النبي ‌صلى ‌الله ‌عليه ‌وسلم ‌سبعين ‌رجلا لحاجة، يقال لهم القراء، فعرض لهم حيان من بني سليم، رعل وذكوان، عند بئريقال لها بئر معونة، فقال القوم: والله ما إياكم أردنا، إنما نحن مجتازون في حاجة للنبي صلى الله عليه وسلم، فقتلوهم، فدعا النبي صلى الله عليه وسلم عليهم شهرا في صلاة الغداة، وذلك بدء القنوت، وما كنا نقنت."

)صحيح البخاری لأبی عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة ابن بردزبه البخاري الجعفي،  ج:5، ص:104،  رقم:4088،  ط :السلطانية(

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہینہ بھر ان قبیلوں پر دعائے ضرر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر آپ کو پہلے معلوم ہوتا یا ان کی سازشوں کو دیکھ رہے ہوتے تو کبھی ان کو روانہ نہ فرماتے، بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے منشا خداوندی دیکھی کہ ان کی موت کا وقت آگیا ہے اس لیے روانہ فرما دیا۔ یہ بات بھی غلط ہے کیونکہ ایک دو دن نہیں پورا مہینہ دعائے قنوت پڑھ کر ان کے خلاف بد دعا فرمانا یہ اس کی دلیل ہے کہ آپ کی یہ تاویل غلط ہے۔

وفیہ أیضاً:  

"قال ‌أبو بردة، ‌عن ‌‌أبي ‌موسى : ‌قال ‌النبي ‌صلى ‌الله ‌عليه ‌وسلم: «‌إني ‌لأعرف ‌أصوات ‌رفقة ‌الأشعريين ‌بالقرآن ‌حين ‌يدخلون ‌بالليل، ‌وأعرف ‌منازلهم ‌من ‌أصواتهم ‌بالقرآن ‌بالليل، ‌وإن ‌كنت ‌لم ‌أر ‌منازلهم ‌حين ‌نزلوا ‌بالنهار."

)صحيح البخاری لأبی عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة ابن بردزبه البخاري الجعفي،  ج:5، ص:138، رقم:4232، ط:السلطانية(

اشعری صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق آپ نے فرمایا میں نے ان کے ٹھکانے کو نہیں دیکھا ،دن کے وقت وہ جہاں ہوتے ہیں،یہ بھی آپ کے ہر جگہ دیکھنے کی نفی ہے۔

وفیہ أیضاً:  

"عن إبراهيم التيمي عن أبيه قال كنا عند حذيفة فقال رجل * لو أدركت رسول الله صلى الله عليه وسلم قاتلت معه وأبليت فقال حذيفة أنت كنت تفعل ذلك لقد رأيتنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة الأحزاب وأخذتنا ريح شديدة وقر فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ألا رجل يأتيني بخبر القوم جعله الله معي يوم القيامة فسكتنا فلم يجبه منا أحد ثم قال ألا رجل يأتينا بخبر القوم جعله الله معي يوم القيامة فسكتنا فلم يجبه منا أحد ثم قال ألا رجل يأتينا بخبر القوم جعله الله معي يوم القيامة فسكتنا فلم يجبه منا أحد فقال قم يا حذيفة فأتنا بخبر القوم....."

)الجامع الصحيح «صحيح مسلم»لأبی الحسين مسلم بن الحجاج بن مسلم القشيري النيسابوري، ج:5، ص:177، رقم :1788 ط: دار الطباعة العامرة - تركيا(

رسول پاک صلی اللہ علیہ کا تین مرتبہ یہ ارشاد فرمایا کہ کون مخالفین کی خبر لائےگا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ہر ہر بات اور ذرہ ذرہ کا علم توخدا کو ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر آپ ہرجگہ ہی ہر وقت دیکھ رہے ہوتے تو ”الا یا تینی بخبر القوم“کہنے کی ضرورت ہی کیا۔ یہ بات آپ نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔

وفیہ أیضاً:  

"حدثنا ‌يحيى بن بكير، حدثنا ‌الليث، عن ‌عقيل، عن ‌ابن شهاب، عن ‌عبد الرحمن بن عبد الله بن كعب بن مالك، أن ‌عبد الله بن كعب بن مالك، وكان قائد كعب من بنيه حين عمي، قال: «سمعت كعب بن مالك يحدث حين تخلف عن قصة تبوك.....قال كعب: فما رجل يريد أن يتغيب ‌إلا ‌ظن ‌أن ‌سيخفى ‌له ‌ما ‌لم ‌ينزل ‌فيه ‌وحي ‌الله."

)صحيح البخاری لأبی عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة ابن بردزبه البخاري الجعفي،  ج:6، ص:3،  رقم:4418،  ط :السلطانية(

يعني غزوہ تبوک میں اتنا رش تھا لوگوں کا مگر کوئی آدمی اس گمان سے چھپنا چاہتا کہ جب تک وحی نہ آئے گی میری عدم موجودگی کا پتہ آپ علیہ السلام کو نہ چلے گا تو چھپ سکتا تھا۔ یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صراحتہً حاضر وناظر اور ہر جگہ دیکھنے کی نفی ہے۔

وفیہ أیضاً:  

"قال أنس أصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم عروسا بزينب بنت جحش قال وكان تزوجها بالمدينة فدعا الناس للطعام بعد ارتفاع النهار فجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم وجلس معه رجال بعد ما قام القوم حتى قام رسول الله صلى الله عليه وسلم فمشى فمشيت معه حتي بلغ باب حجرة عائشة ثم ظن أنهم قد خرجوا فرجع ورجعت معه فإذا هم جلوس مكانهم."

)صحيح البخاری لأبی عبد الله، محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة ابن بردزبه البخاري الجعفي،  ج:7، ص:83، رقم:5466،  ط :السلطانية(

آپ نے سیدہ رینب رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا چند صحابہ کرام کو دعوت ولیمہ پر مدعو فرمایا تو وہ کھانے کے بعد آپ علیہ السلام کی باتیں سننے کے لیے بیٹھ گئے، ان کے طویل بیٹھنے سے آپ کو یہ بات ناگوار نہ گزری مگر زبان سے توکچھ نہ کہا اور خود اٹھ کر باہر تشریف لے گئے کہ شاید یہ بھی چلے جائیں گے مگر جب واپس آکر دیکھا تو وہ بدستور بیٹھے ہیں آپ پھر سے چلے گئے تو پھر آپ تشریف لائے۔ یہ روایت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر جگہ حاضر وناظر ہونے صراحتہً تردید کر رہی ہے۔ 

مسلم شریف میں ہے:

 "وحدثني ‌زهير بن حرب ، حدثنا ‌حجين بن المثنى ، حدثنا ‌عبد العزيز، وهو ابن أبي سلمة ، عن ‌عبد الله بن الفضل ، عن ‌أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن ‌أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: « لقد رأيتني في الحجر وقريش تسألني عن مسراي، فسألتني عن أشياء من ‌بيت ‌المقدس ‌لم أثبتها، فكربت كربة ما كربت مثله قط، قال: فرفعه الله لي أنظر إليه، ما يسألوني عن شيء إلا أنبأتهم به."

)الجامع الصحيح «صحيح مسلم»لأبی الحسين مسلم بن الحجاج بن مسلم القشيري النيسابوري، ج:1، ص:108، ط: دار الطباعة العامرة - تركيا(

اس میں الفاظ حدیث کی طرف غور فرمائیں ”فكربت كربة ما كربت مثله قط“ یعنی میں اتنا پریشان ہوا کہ اتنا پریشان کبھی نہیں ہوا، معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہر جگہ حاضر وناظر نہ تھے ورنہ پریشانی کی ضرورت ہی نہ تھی۔ کیونکہ اگر انہوں نے بیت المقدس کی کھڑکیاں وغیرہ پوچھ ہی لیں تھیں تو ُ آپ تو ہر جگہ کو دیکھ رہےتھے آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ فاضل بریلوی کے چاہنے والوں نے خود گھڑا ہے۔

ابن ماجہ شریف میں ہے:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:
" حدثنا العباس بن عثمان الدمشقي قال: حدثنا الوليد بن مسلم قال: حدثنا حنظلة بن أبي سفيان، أنه سمع عبد الرحمن بن سابط الجمحي، يحدث عن عائشة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: أبطأت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة بعد العشاء، ثم جئت فقال: «أين كنت؟» قلت: كنت أستمع قراءة رجل من أصحابك لم أسمع مثل قراءته وصوته من أحد، قالت: فقام وقمت معه حتى استمع له، ثم التفت إلي فقال: «هذا سالم مولى أبي حذيفة ، ‏‏‏‏‏‏ ‏‏‏‏‏‏الحمد لله الذي جعل في امتي مثل هذا."

(سنن لابن ماجة أبو عبد الله محمد بن يزيد القزويني، وماجة اسم أبيه يزيد (ت ٢٧٣ هـ)۔ ج:1، ص:425، رقم :1338،ط: دار إحياء الكتب العربية)

ترجمہ:’’میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ایک رات عشاء کے بعد دیر کر دی، پھر آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم کہاں تھی ؟ میں نے عرض کیا : میں آپ کے ایک صحابی کی قرأت سن رہی تھی، میں نے نہ اس کی قرأت کی طرح کوئی قرأت سنی ہے نہ اس کی آواز کی مانند کوئی آواز،  پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور میں بھی آپ کے ساتھ کھڑی ہو گئی حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاری کی قرأت سنی، پھر میری طرف توجہ کی اور فرمایا : یہ ابوحذیفہ کے آزاد کردہ غلام سالم ہیں۔ تمام تعریفیں اس اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے میری امت میں اس طرح کے لوگ پیدا کیے ہیں۔

یہاں بھی اللہ کے رسول نے بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ آپ کہاں تھی،جو کہ نبی کریم ﷺ کے حاضر و ناظر نہ ہونے پر بین دلیل ہے۔

مسند بزار میں ہے:

 "حدثنا أحمد بن عبد الجبار، قال: نا يونس بن بكير، قال: نا عثمان بن عبد الله بن عبد الرحمن، عن عائشة بنت سعد، عن أبيها سعد، قال: لما جال الناس عن رسول الله صلى الله عليه وسلم الجولة يوم أحد، قلت: أدوم، فإما أن أستشهد، وإما أن أنجو، حتى ألقى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فبينا أنا كذلك إذا أنا برجل مخمر وجهه، ما أدري من هو؟، فأقبل المشركون يجيئون نحوه، إذ قلت قد ركبوه؟، فملأ يده من الحصى ثم رمى به في وجوههم، فمضوا على أعقابهم القهقرى، حتى جازوا، وصاروا بإزاء الجبل، ففعل ذلك مرارا، وما أدري من هو؟، وبيني وبينه المقداد، فبينا أنا أريد أن أسأل المقداد عنه، إذ قال: المقداد ‌يا ‌سعد، هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم يدعوك، فقلت: وأين هو؟، فأشار إلي المقداد إليه فقمت، ولكأنما لم يصبني شيء من الأذى، فقال: «أين كنت منذ ‌اليوم ‌يا ‌سعد؟".....

)مسند البزار المنشور باسم البحر الزخارلأبي بكر أحمد بن عمرو بن عبد الخالق بن خلاد بن عبيد الله العتكي المعروف بالبزار (ت ٢٩٢ هـ)، ج:٤، ص:٤٩، ط: مكتبة العلوم والحكم - المدينة المنورة)

غزوۂ احد کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا : كہ ر سول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا "أين كنت اليوم يا سعد! ’’سعد ! آج تم کہاں تھے ؟

    فتاوی  جات ملاحظہ کیجئے:

مولانا عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"اعتقاد اینکہ کسےغیرحق سبحانہ حاضروناظروعالم خفی وجلی درہروقت وہرآن  است ،اعتقادشرک است۔"

)مجمو عۃ الفتاویٰ علی ہامش خلاصۃ الفتاویٰ، ج:4 ، ص:331، ث ط:امجداکیڈیمی(

امداد الفتاوی میں ہے:

"بارادۂ استعانت و استغاثہ یا باعتقاد حاضر وناظر ہونے کے منہی عنہ  اوربدون اس اعتقاد کے محض شوقاً و استلذاذاً ماذون فیہ ہے، چوں کہ اشعار پڑھنے کی غرض محض اظہار شوق و استلذاذ ہو تاہے؛ اس  لیے نقل میں توسع کیا گیا، لیکن اگر کسی جگہ اس کے خلاف دیکھا جائے گا، منع کر دیا جائے گا۔"

)امداد الفتاوی، ج :5،  ص:391،دار الاشاعت(

 

مزید تفصیل کے لیے امام اہل السنۃ شیخ سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کے کتاب "تبرید النواظر فی تحقیق الحاضر والناظر یعنی آنکھوں کی ٹھنڈک "مطالعہ کیجئے۔

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101523

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں