بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہاتھ پر مہندی سے شوہر کا نام لکھنا


سوال

کیا مہندی سے ہاتھ پر شوہر کا نام لکھنا جائز ہے؟ اور  اگر محمد و غیرہ اس کے نام کا حصہ ہو تو، کیا بے حرمتی کا گناہ ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ مہندی سے ہاتھ پر شوہر کا نام لکھنا جائز تو ہے، لیکن تہذیب اور مسلمان خواتین کی طبعی شرم و حیاء  کے خلاف ہے، اس لیے اس سے احتراز ہی بہتر ہے، البتہ اگر شوہر کے نام میں اللہ تعالی کا  ذاتی یا صفاتی نام آتا ہو، یا نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلّم یا دیگر انبیاء علیہم السلام میں سے کسی کا نامِ مبارک آتا ہو، یا کسی صحابی کا نام آتا ہو، تو اسے ہاتھوں پر لکھنا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ  بیت الخلاء جانے، زمین پر رکھنے، کسی ناپاک چیز یا نامناسب مقام کو چھونے پر   اس کی بے حرمتی کا خطرہ ہے ، لہذا ایسی صورت میں لکھنے و الے کو گناہ ہوگا؛ تاہم اگر کسی نے یہ مبارک و محترم کلمات لکھ لیے ہوں تو جب تک مٹ نہ جائیں، اسے بیت الخلاء جاتے وقت انہیں(آستین و غیرہ کے کپڑے سے)  چھپا کر جانا چاہیے اور ناپاک اشیاء یا زمین کو چھونے سے بچانا چاہیے۔

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاحمیں ہے:

"(قوله: ويكره الدخول للخلاء ومعه شيء مكتوب الخ)؛ لما روى أبو داود والترمذي عن أنس قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا دخل الخلاء نزع خاتمه: أي؛ لأن نقشه محمد رسول الله. قال الطيبي: فيه دليل على وجوب تنحية المستنجي اسم الله تعالى واسم رسوله والقرآن اهـ وقال الأبهري: وكذا سائر الرسل اهـ وقال ابن حجر: استفيد منه أنه يندب لمريد التبرز أن ينحى كل ما عليه معظم من اسم الله تعالى أو نبي أو ملك، فإن خالف كره؛ لترك التعظيم اهـ وهو الموافق لمذهبنا كما في شرح المشكاة. قال بعض الحذاق: ومنه يعلم كراهة استعمال نحو إبريق في خلاء مكتوب عليه شيء من ذلك اهـ وطشت تغسل فيه الأيدي، ثم محل الكراهة إن لم يكن مستوراً، فإن كان في جيبه؛ فإنه حينئذٍ لا بأس به. وفي القهستاني عن المنية: الأفضل أن لا يدخل الخلاء وفي كمه مصحف إلا إذا اضطر، ونرجو أن لا يأثم بلا اضطرار اهـ وأقره الحموي. وفي الحلبي: الخاتم المكتوب فيه شيء من ذلك إذا جعل فصه إلى باطن كفه، قيل: لا يكره، والتحرز أولى".

(فصل فيما يجوز به الإستنجاء، ص54، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

’’إذا كتب اسمَ ’’فرعون‘‘ أو كتب ’’أبو جهل‘‘ على غرض، يكره أن يرموه إليه؛ لأن لتلك الحروف حرمةً، كذا في السراجية‘‘.

(ج5، ص323،  ط: رشيدية)

وفیه أیضاً:

’’ولو كتب القرآن على الحيطان و الجدران، بعضهم قالوا: يرجى أن يجوز، و بعضهم كرهوا ذلك مخافة السقوط تحت أقدام الناس، كذا في فتاوي قاضيخان‘‘.

( الباب الخامس في آداب المسجد، و ما كتب فيه شيئ من القرآن، أو كتب فيه اسم الله تعالى،ج5، ص323، ط: رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410100974

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں