بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حیات اور نزول عیسی علیہ السلام کے منکر کا حکم


سوال

 اگر کوئی شخص حیات و نزول عيسى علیہ السلام کے عقیدے میں تاویل کرے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو گا یا صرف اہل سنت و الجماعت سے؟

علامہ انور شاہ کشمیری نے اکفار الملحدین میں تحریر فرمایا ہے کہ:

"إنه قد تواتر و انعقد الإجماع على نزول عيسى بن مريم علیه السلام، فتأويل هذه و تحریفه کفر أيضا"

(إكفار الملحدين ص:33،ط:دار البشائر الإسلامية)

جب کہ  مولانا امین صفدر اکاڑوی نے تحریر فرمایا ہے کہ:

" اور کچھ عقائد و اعمال ضروریات اہل سنت الجماعت کے درجہ میں ہیں اس سے وہ عقائد و اعمال مراد ہیں جو قرن ثانی و ثالث میں عوام و خواص میں مشہور ہو گئے جن کی آسان پہچان یہ ہے کہ ان پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہو جیسے پہلی تکبیر کی رفع یدین،حیات عیسی ۔۔۔وغیرہ ان مسائل کو ضروریات اہل سنت کہتے ہیں،ان مسائل کو اسی مفہوم کے مطابق ماننا جس طرح مانتے ہیں ان میں سے کسی کے انکار یا باطل تاویل کرنے سے انسان اہل سنت سے نکل کر اہل بدعت میں شامل ہو جاتا ہے"

(ماہنامہ الخیر ملتان،مولانا امین صفدر اوکاڑوی نمبر،ص:171.)

اسی طرح حکیم الامت صاحب نے امداد الفتاوی میں تحریر فرمایا ہے:

سوال:حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کا معتقد دائرہ اسلام سے خارج ہے کہ نہیں؟ جواب: اس نص قطعی الثبوت کا اگر یہ شخص منکر ہے تو اسلام سے خارج ہے اور اگر اس کو غير قطعي الدلالة قرار دے کر تاویل کرتا ہے تو مبتدع و ضال ہے۔

(امداد الفتاوی،ج5 ،ص:440،سوال نمبر:392 )

مذکورہ عبارات میں جو ظاہرا تعارض نظر آرہا ہے اس کی کیا تو جیہ ہوگی؟

جواب

واضح رہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور نزول قرآن و حدیث سے ثابت ہے، اور یہ عقیدہ ضروریات دین میں سے ہے، اور ضروریاتِ دین کا منکر یا اس میں تاویل کرنے والا  دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتاہے، جیسا کہ اکفار الملحدین کے حوالے سے سوال میں نقل کی گئی عبارت میں ذکر ہے۔(ص:۱۱،ط:المجلس العلمی)

مذکورہ کتاب کی دوسری جگہ میں کتاب "ایثار الحق علی الخلق " سے نقل فرماتے ہیں کہ:

"أن الكفر هو جحد الضروريات من الدين أو تأويلها"

(ص:۷۹، ط:المجلس العلمی)

علامہ محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"ضروریات دین میں تاویل مسموع نہیں: تاویل وہاں معتبر ہے کہ جہاں کوئی اشتباہ ہو اور قواعد عربیت اور قواعد شریعت میں اس کی گنجائش ہو، یعنی وہ تاویل کتاب وسنت اور اجماع امت کے خلاف نہ ہو اور جو حکم شرعی ایسی دلیل سے ثابت ہو کہ جو قطعی الثبوت اور قطعی الدلالت بھی ہو، اس میں تاویل معتبر نہیں، بلکہ ایسے امور میں تاویل کرنا انکار کے ہم معنی ہے"

(احتساب قادیانیت،ج:۲ص:۴۱۷،ط:عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت)

مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ ضروریات دین کا انکار یا اس میں تاویل کرنا کفر ہے اور مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتاہے۔

اگر مولانا امین صفدر اکاڑوی رحمہ اللہ کی عبارت میں غور وخوض کیا جائے تو ان کی عبارت اور علامہ کشمیری رحمہ اللہ کی عبارت میں کوئی تنافی اور تضاد نہیں ہے؛ اس لیے کہ نزول عیسی اور حیات عیسی  کو ضروریات اہل سنت والجماعت کہنا ضروریات دین ہونے کے بالکل منافی نہیں؛ کیوں کہ جو عقائد ضروریات دین  میں شامل ہیں وہی ضروریات اہل سنت والجماعت  میں بھی شامل ہیں، اور  ان ضروریات کا منکر یا تاویل کرنے والا جس طرح دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتاہے، اسی طرح  وہ اہل سنت والجماعت سے بھی خارج ہوجائے گا، تاہم   مولانا امین صفدر اکاڑوی رحمہ اللہ  نے اپنی عبارت  میں کفرِ صریح کا لفظ اس لیے اختیار نہیں فرمایا کہ حضرت رحمہ اللہ علیہ نے اس مقام میں ضروریاتِ دین میں سے کچھ کو شمار کیا ہے، اوراس کے تحت اہلِ سنت والجماعت کے مجمع علیہ عقائد میں سے کچھ عقائد کو بطورِ مثال بیان فرمایا ہے، تو وہاں پر حضرت اوکاڑوی رحمہ اللہ علیہ ایک عمومی بات بیان فرمارہے ہیں، اور کافی عقائد کا تذکرہ فرمارہے ہیں، اسی لیے عقائد بیان کرنے کے بعد اس کے منکر پر حکم لگانے کے دوران سخت الفاظ کو استعمال نہیں فرمایا، اور صراحۃً کفر  نہیں فرمایا ہے،بلکہ یہ فرمایاکہ ان تمام عقائد میں کسی  کا انکار یا باطل تاویل کرنے سے انسان اہلِ سنت سے نکل کر اہلِ بدعت میں شامل ہوجاتا ہے، لیکن اس سے یہ بات بھی مصرح نہیں ہورہی کہ حیاتِ عیسیٰ علیہ السلام کا منکر کافر نہیں ہے۔

رہی بات حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ علیہ کہ انہوں نے امداد الفتاویٰ میں یہ لکھا ہے کہ: اس عقیدہ میں تاویل کرنےوالا کافر نہیں ہے، تو وہ حضرت حکیم الامت نے غالباًاس آیت کے متعلق فرمایا ہے :

"إِذْ قَالَ ٱللَّهُ يَٰعِيسَىٰٓ إِنِّى مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَىَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ وَجَاعِلُ ٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوكَ فَوْقَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓاْ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَٰمَةِ ۖ ثُمَّ إِلَىَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ."

ترجمہ:’’جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے عیسی (کچھ غم نہ کرو) بے شک میں تم کو وفات دینے والا ہوں، اور (فی الحال) میں تم کو اپنی طرف اٹھائے لیتا ہوں، اور تم کو ان لوگوں سے پاک کرنے والا ہوں، جو منکر ہیں، اور جو لوگ تمہارا کہنا ماننے والے ہیں، ان کو غالب رکھنے والا ہوں، ان لوگوں پر جو کہ (تمہارے) منکر ہیں روزِ قیامت تک۔ پھر میری طرف ہوگی ان سب  کی واپسی، سو میں تمہارے درمیان(عملی) فیصلہ کردوں گا ان امور میں جن میں تم باہم اختلاف کرتے تھے۔‘‘

(از: بیان القرآن، ج: 1، ص: 240، ط: مکتبہ رحمانیہ)

 کہ  یہ آیت قطعی الثبوت بھی ہے اور اپنے معنی میں قطعیٰ الدلالۃ بھی ہے، اور اس سے مراد یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے پورا پورا آسمانوں پر اٹھالیا تھا، اور پھر جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام قربِ قیامت میں دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے، اور دشمنوں پر فتح پائیں گے، اس کے بعد ان پر طبعی موت بھی واقع ہوگی، آیت کے سیاق و سباق میں کچھ تقدیم و تاخیر ہے، جیسا کہ تفسیر در منثور میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ روایت اس طرح منقول ہے:

"وأخرج إسحاق بن بشر، و ابن عساكر من طريق جوهر عن الضحاك عن ابن عباس في قوله: {إني متوفيك ورافعك} يعني رافعك ثم متوفيك في آخر الزمان."

اس تفسیر کا خلاصہ یہ ہے کہ" توفي" کے معنی موت ہی کے ہیں، مگر الفاظ میں تقدیم و تاخیر ہے،"رافعك"کا پہلے اور"متوفیك" کا وقوع بعد میں ہوگا، اور موقع پر "متوفیك" کو مقدم ذکر کرنے کی حکمت و مصلحت اس پورے معاملے کی طرف اشارہ کرنا ہے جو آگے آنے والا ہے، یعنی یہ اپنی طرف بلا لینا ہمیشہ کے لیے نہیں، چند روزہ ہوگا اور پھر اس دنیا میں آئیں گے اور دشمنوں پر فتح پائیں گے،اور بعد میں طبعی طور پر آپ کی موت واقع ہوگی، اس طرح دوبارہ آسمان سے نازل ہونے اور دنیا پر فتح پانے کے بعد موت آنے کا واقعہ ایک معجزہ بھی تھا اور حضرت عیسی علیہ السلام کے اعزاز و اکرام کی تکمیل بھی، نیز اس میں عیسائیوں کے عقیدہ الوہیت کا ابطال بھی تھا، ورنہ ان کے زندہ آسمان پر چلے جانے کے واقعہ سے ان کا عقیدہ باطل اور پختہ ہوجاتا کہ وہ بھی خدا تعالی کی طرح حی قیوم ہے، اس لیے پہلے "متوفیك" کا لفظ ارشاد فرمایاکہ ان تمام خیالات کا ابطال کردیا ، پھر اپنی طرف بلانے کا ذکر فرمایا‘‘۔

(معارف القرآن، ج: 2، ص:   73 تا 75، ط: مکتبہ معارف القرآن)

حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ علیہ نے اس آیت کے متعلق یہ بات خصوصی طور پر ذکر کی ہے کہ اگر کوئی شخص اس آیت کو قطعی الثبوت تو مانے، لیکن اس آیت کو غیر قطعی الدلالۃ قرار د ےکر اس آیت کے مفہوم میں کسی قسم کی باطل اور جمہور سے ہٹ کر تاویل کرے،  اور اس تاویل کی بناء پر  وفاتِ عیسیٰ علیہ السلام کا اعتقاد رکھے،تو اس تاویل کرنے کی وجہ سے وہ شخص مبتدع اور ضال (گمراہ ) شمار ہوگا؛ کیوں کہ اس کی یہ تاویل جمہور علمائے امت کے خلاف اور اس سے ہٹ کر ہے، نیز اگر کوئی شخص اس آیت کے قطعی الثبوت ہونے کا ہی انکار کر بیٹھے، اور اس وجہ سے وفاتِ عیسی علیہ السلام کا معتقد ہو، تو پھر اس صورت میں وہ دائرہ اسلام سےہی  خارج ہی شمار ہوگا۔ 

خلاصہ یہی نکلا کہ حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ علیہ کے قول کے مطابق بھی وفاتِ عیسی علیہ السلام کا اعتقاد رکھنے والا دائرہ اسلام سے خارج شمار ہوگا، باقی ان کا مذکورہ سوال و جواب ایک خاص آیت کو غیر قطعی الدلالۃ قرار دے کر اس آیت کے مفہوم مراد لینے کے ساتھ خاص ہے۔

حضرت مولانامفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ [اہلِ اسلام کے اجماعی عقیدہ کی وضاحت میں] لکھتے ہیں کہ:

"یہودیوں کایہ کہناہے کہ عیسیٰ علیہ السلام مقتول ومصلوب ہوکر دفن ہوگئے اور پھر زندہ نہیں ہوئے اور ان کے اس خیال کی حقیقت قرآن کریم نے سورۂ نساء کی آیت:"وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمۡۚ"میں واضح کردی ہے اور اس آیت میں بھی ’وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللّٰه‘‘ ۔۔۔۔۔ نصاریٰ کا کہنا یہ تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام مقتول ومصلوب تو ہوگئے، مگر پھر دوبارہ زندہ کر کے آسمان پر اُٹھالیے گئے۔ مذکورہ آیت میں ان کے اس غلط خیال کی بھی تردید کردی اور بتلادیا کہ جیسے یہودی اپنے ہی آدمی کو قتل کرکے خوشیاں منارہے تھے، اس سے یہ دھوکہ عیسائیوں کوبھی لگ گیا کہ قتل ہونے والے عیسیٰ ؑ ہیں، اس لیے ’’شُبِّہَ لَہُمْ‘‘ کے مصداق یہود کی طرح نصاریٰ بھی ہوگئے۔ ان دونوں گروہوں کے بالمقابل اسلام کا وہ عقیدہ ہے جو اس آیت اور دوسری کئی آیتوں میں وضاحت سے بیان ہوا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کو یہودیوں کے ہاتھ سے نجات دینے کے لیے آسمان پر زندہ اُٹھالیا۔ نہ ان کو قتل کیا جاسکا، نہ سولی پر چڑھایا جاسکا، وہ زندہ آسمان پر موجود ہیں اور قربِ قیامت میں آسمان سے نازل ہوکر یہودیوں پر فتح پائیں گے اور آخر میں طبعی موت سے وفات پائیں گے۔"

(معارف القرآن ،ج: ۲،ص:۷۸-۷۹، مکتبہ دار العلوم کراچی) 

    علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث اس معاملہ میں متواتر ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قبلِ قیامت نازل ہونے کی خبر دی ہے۔

"وقد تواترت الأحاديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه أخبر بنزول عيسى عليه السلام قبل يوم القيامة إماما عادلا وحكما مقسطا."

(ج:7، ص:217، ط:دار الكتب العلمية)

نیزعصر حاضرکے علمائے عرب کا فیصلہ بھی اسی کے موافق ہے:

"ذھب أهل السنة والجماعة إلی أن المسیح عیسٰی علیه الصلوۃ والسلام لم یزل حیاً، وأن اللّٰہ رفعه إلی السماء وأنه سینزل آخر الزمان عدلاً یحکم بشریعة نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ویدعوا إلٰی ماجاء به من الحق ، وعلٰی ذٰلک دلت نصوص القرآن والأحادیث الصحیحة"

  (فتاویٰ علماء البلدالحرام، ص:460، ط: ریاض سعودی عرب) 

باقی حیاتِ عیسی علیہ السلام کے متعلق مزید تشفی کےلیے مندرجہ ذیل کتب کی طرف مراجعت کرلیجیے:

الف: حضرت مولانا ادریس صاحب کاندھلوی رحمہ اللہ علیہ کی تصنیف’’ نزول عیسیٰ و ظہور مہدی‘‘ کا مطالعہ فرمالیا جائے۔

ب: علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ علیہ کی تصنیف ”التصریح بما تواتر فی نزول المسیح“ میں اس موضوع پر مکمل بحث موجود ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100375

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں