اگر حمل میں شوہر دوبار طلاق دےتو ہوجاتی ہے یا نہیں ؟اور رجوع کا کیا طریقہ ہے ؟
واضح رہے کہ شرعاً حمل کی حالت میں دی جانے والی طلاق بھی واقع ہوجاتی ہے، صورت مسئولہ میں اگر شوہر نے اپنی بیوی کو دو طلاقِ رجعی دی ہوں تو اس سے رجوع کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی سے عدت کے دوران (بچے کی پیدائش سے پہلے) یہ کہہ دے کہ میں نے رجوع کیا، اور اس پر دو آدمیوں کو گواہ بھی بنا لے، ایسا کرنے سے شرعاً رجوع ہو جائے گا، رجوع کے لیے ضروری نہیں کہ بیوی کے سامنے کہا جائے، اسی طرح بیوی کا سننا بھی ضروری نہیں، لہذا اگر بیوی کی غیر موجودگی میں بھی یوں کہہ دے کہ میں نے اپنی بیوی سے رجوع کر لیا اور گواہ موجود ہوں تو رجوع ہو جائے گا۔واضح رہے کہ رجوع پر گواہ بنالینا مستحب ہے، تاکہ بوقتِ ضرورت رجوع ثابت کرسکے۔ اگر گواہ بنائے بغیر زبانی رجوع کرلیا اور بیوی نے بھی رجوع تسلیم کرلیا تو رجوع ثابت ہوگا۔
مبسوط سرخسی میں ہے :
"أن من أقر بطلاق سابق يكون ذلك إيقاعا منه في الحال؛ لأن من ضرورة الاستناد الوقوع في الحال، وهو مالك للإيقاع غير مالك للإسناد."
(كتاب الطلاق ، باب من الطلاق، ١٣٣/٦، ط:دارالمعرفة)
فتح القدير على الهداية میں ہے:
"(وإذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها) لأن حل المحلية باق لأن زواله معلق بالطلقة الثالثة فينعدم قبله، ومنع الغير في العدة لاشتباه النسب".
(فصل فيما تحل به المطلقة،١٧٦/٤،ط : شركة مكتبة)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
" إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة".
[فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به،٤٧٢/١،ط : المطبعة الكبرى]
فتاوی شامی میں ہے:
" في ثلاثة أطهار لا وطء فيها ولا حيض قبلها ولا طلاق فيه فيمن تحيض و) في ثلاثة (أشهر في) حق (غيرها) حسن وسني فعلم أن الأول سني بالأولى (وحل طلاقهن) أي الآيسة والصغيرة والحامل (عقب وطء) لأن الكراهة فيمن تحيض لتوهم الحبل وهو مفقود هنا".
[ركن الطلاق،٢٣٢/٣،ط : دار الفكر]
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144508101051
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن