بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حالتِ جنابت میں نماز پڑھنے سے دائرہ اسلام سے خارج ہونے کا حکم


سوال

1۔ میں نے یہ مسئلہ سنا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے ہاتھ سے اپنے اوپر غسل فرض کرے اور اسی حالت میں نماز پڑھ لے تو اس سے وہ شخص دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، اس کی وضاحت فرمادیں۔

 2۔اگر کوئی شخص اپنے اوپر غسل فرض کرے اور غسل کر بھی لے اور نماز پڑھنے کے بعد اسے پتہ چلے کہ اس کا غسل نہیں ہوا تو کیا حکم ہوگا؟

جواب

1۔ اگر کوئی شخص حالتِ جنابت (یعنی غسل واجب ہونے کی حالت میں) نماز پڑھنے کو جائز اور درست سمجھتا ہے، یا دین یا نماز کے استخفاف، حقارت اور اہانت کی غرض سے غسل واجب ہونے کی صورت میں غسل کے بغیر نماز پڑھتا ہے،  تو  ایسا شخص حکمِ شرعی کی اہانت، استخفاف اور  فرض کے انکار کی وجہ سے دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، اس پر تجدیدِ ایمان اور شادی شدہ ہونے کی صورت میں تجدیدِ نکاح کرنا بھی لازم ہوگا، لیکن اگر کوئی شخص غسل جنابت کیے بغیر  نماز پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتا، اور نہ ہی شریعت کی اہانت کی غرض سے ایسا کرتا ہے، بلکہ لاعلمی میں یا غلطی سے یا سستی، کاہلی وغیرہ کی وجہ سے وضو یا غسل جنابت کیے بغیر نماز پڑھتا ہے تو  اس سے یہ شخص دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوگا، اگر چہ سستی اور کاہلی وغیرہ کی وجہ سے ایسا کرنا  گناہ ہے، جس پر توبہ واستغفار کرنا لازم ہوگااور نماز کا اعادہ  لازم ہوگا۔

2۔ اگر کوئی شخص غسل کرلے اور پھر نماز پڑھے، بعد میں پتہ چلے کہ اس کا غسل نہیں ہوا ہے، تو اس شخص پر اس نماز کو دوبارہ پاکی کے ساتھ پڑھنا واجب ہے، البتہ چوں کہ اس شخص نے ناپاکی کی حالت میں نماز جان بوجھ کر نہیں پڑھی، بلکہ بھول اور غلطی کی بنا پر ایسا کیا ہے، اس لیے امید ہے کہ اس کا گناہ تو   نہیں ہوگا، تاہم احتیاط یہ ہے کہ وہ  اس پر اللہ کے دربار میں توبہ و استغفار کر کے اس کی تلافی کرے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: وبه ظهر أن تعمد الصلاة بلا طهر غير مكفر كصلاته لغير القبلة أو مع ثوب نجس، وهو ظاهر المذهب، كما في الخانية. (قوله: غير مكفر) أشار به إلى الرد على بعض المشايخ، حيث قال: المختار أنه يكفر بالصلاة بغير طهارة لا بالصلاة بالثوب النجس وإلى غير القبلة لجواز الأخيرتين حالة العذر بخلاف الأولى فإنه لايؤتى بها بحال فيكفر. قال الصدر الشهيد: وبه نأخذ، ذكره في الخلاصة والذخيرة، وبحث فيه في الحلية بوجهين: أحدهما ما أشار إليه الشارح. ثانيهما أن الجواز بعذر لايؤثر في عدم الإكفار بلا عذر؛ لأن الموجب للإكفار في هذه المسائل هو الاستهانة، فحيث ثبتت الاستهانة في الكل تساوى الكل في الإكفار، وحيث انتفت منها تساوت في عدمه، وذلك لأنه ليس حكم الفرض لزوم الكفر بتركه، وإلا كان كل تارك لفرض كافراً، وإنما حكمه لزوم الكفر بجحده بلا شبهة دارئة اهـ ملخصاً: أي والاستخفاف في حكم الجحود. (قوله: كما في الخانية) حيث قال بعد ذكره الخلاف في مسألة الصلاة بلا طهارة: وأن الإكفار رواية النوادر. وفي ظاهر الرواية: لايكون كفراً، وإنما اختلفوا إذا صلى لا على وجه الاستخفاف بالدين، فإن كان وجه الاستخفاف ينبغي أن يكون كفراً عند الكل. اهـ.أقول: وهذا مؤيد لما بحثه في الحلية لكن بعد اعتبار كونه مستخفا ومستهينا بالدين كما علمت من كلام الخانية، وهو بمعنى الاستهزاء والسخرية به، أما لو كان بمعنى عد ذلك الفعل خفيفا وهينا من غير استهزاء ولا سخرية، بل لمجرد الكسل أو الجهل فينبغي أن لايكون كفرا عند الكل، تأمل".

(كتاب الطهارة، ج: 1، ص: 81، ط: دار الفكر بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"وحديث «رفع عن أمتي الخطأ» محمول على رفع الإثم.

 (قوله: «رفع عن أمتي الخطأ») قال في الفتح: ولم يوجد بهذا اللفظ في شيء من كتب الحديث، بل الموجود فيها " «إن الله وضع عن أمتي الخطأ والنسيان وما استكرهوا عليه»، رواه ابن ماجه وابن حبان والحاكم، وقال: صحيح على شرطهما، ح.

(قوله: على رفع الإثم) وهو الحكم الأخروي، فلا يراد الدنيوي وهو الفساد؛ لئلايلزم تعميم المقتضى، ح عن البحر"

(کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ و ما يكره فيها، ج: 1، ص: 615، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144312100303

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں