بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 محرم 1447ھ 02 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

حالتِ جنابت میں قرآنِ کریم پر ہاتھ رکھ کر جھوٹی قسم کھانے کا حکم


سوال

میں نے اپنی زوجہ محترمہ کو منع کیا تھا کہ فلاں جگہ نہ جائیں، لیکن وہ وہاں چلی گئیں۔ بعد ازاں جب میں نے اس بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے قرآنِ مجید پر ہاتھ رکھ کر  حلف اٹھایا۔ بعد میں خود اقرار کیا کہ میں نے جھوٹا حلف اٹھایا تھا۔ نیز اس وقت وہ حالتِ جنابت میں تھیں۔

براہِ کرم راہ نمائی فرمائیں کہ اس صورت میں توبہ و استغفار کے علاوہ کفارہ بھی لازم آئے گا یا نہیں؟ اگر کفارہ لازم ہے تو اس کی مقدار کیا ہوگی؟

جواب

سائل کی بیوی  قرآنِ کریم پر ہاتھ رکھ کر جھوٹی قسم کھانے کی وجہ سے سخت  گناہِ کبیرہ کی مرتکب ہوئی ہیں ۔حدیث شریف میں جھوٹی قسم کو شرک  کے بعدبڑا اورسنگین گناہ کہاگیا ہے اورحلف جب حالتِ جنابت میں قرآن پر ہاتھ رکھ کرہوتو اس گناہ کی سنگینی از حد بڑھ جاتی ہے۔اب توبہ واستغفار کیا جائے، گڑگڑا کر اللہ سے معافی مانگی جائے اورآئندہ کے لئے اس طرح نہ کرنے کا عزم کرلیا جائے، باقی،جھوٹی قسم کھانے  کی صورت میں کفارہ لازم نہیں ہوتا۔اپنی مرضی سے کچھ صدقہ کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الكبائر الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، واليمين الغموس.»"

ترجمہ:نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی جان کو ناحق قتل کرنا، اور جھوٹی قسم کھانا ۔“

(صحيح البخاري، كتاب الأيمان والنذور، باب اليمين الغموس، رقم الحديث: 6675، ج: 8، ص: 137، ط:دار طوق النجاة - بيروت)

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(وهي) أي اليمين بالله... (غموس) تغمسه في الإثم ثم النار، وهي كبيرة مطلقا، لكن إثم الكبائر متفاوت نهر (إن حلف على كاذب عمدا) ولو غير فعل أو ترك كوالله إنه حجز الآن في ماض (كوالله ما فعلت) كذا (عالما بفعله أو) حال (كوالله ما له علي ألف عالما بخلافه والله إنه بكر عالما بأنه غيره) وتقييدهم بالفعل والماضي اتفاقي أو أكثري (ويأثم بها) فتلزمه التوبة".(قوله وهي كبيرة مطلقا) أي اقتطع بها حق مسلم أو لا... و معلوم أن إثم الكبائر متفاوت. اهـ.وكذا قال المقدسي: أي مفسدة أعظم من هتك حرمة اسم الله تعالى... (قوله ويأثم بها) أي إثما عظيما كما في الحاوي القدسي...  (قوله فتلزمه التوبة) إذ لا كفارة في الغموس يرتفع بها الإثم فتعينت التوبة للتخلص منه"

( كتاب الأيمان، ج: 3، ص: 705، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144611101453

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں