بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حالتِ حیض میں عمرہ کیا


سوال

سوال ایک خاتون نو سال پہلے عمرہ کے لیے گئیں ،عادت کے مطابق نو یا آٹھ دن کے بعد اپنی طرف سے مکمل تسلی کر کے حیض سے پاک ہو کر پہلا عمرہ کیا ،ہوٹل آکر کاٹن پر دھاگے برابر باریک خون دیکھا اس کے بعد وہ پاک رہی(جبکہ یہ سب اس نے قصدا ایسا نہیں کیا) کیا اب وہ اس پر کوئی دم یا صدقہ آئے گا ؟

جواب

غسل فرض سے فارغ ہونے کے بعد اگر خاتون دوبارہ خون دیکھے تو اس صورت میں تفصیل یہ ہے کہ اگر غسل حیض کی اکثر مدت  ( دس دن) مکمل ہونے کے بعد کیا ہو، یا نفاس کی اکثر مدت ( چالیس دن) مکمل ہونے کے بعد  کیا ہو تو  اس صورت میں آنے والے خون کی وجہ سے غسل باطل نہیں ہوگا، البتہ خون دھونے کے بعد با وضو ہو کر تمام عبادات کرنے کی اجازت ہوگی۔  تاہم اگر حیض یا نفاس کا خون اکثر مدت مکمل ہونے سے پہلے بند ہو گیا ہو  اور یہ خون اکثرِ مدت کے اندر آگیا ہو تو اس صورت میں آنے والا خون غسل کو باطل کردے گا، پس اگر وہ خون اکثر مدت مکمل ہونے پر یا اس سے پہلے بند ہو گیا تو یہ تمام ایام ناپاکی کے شمار ہوں گے، اور خاتون کی عادت کی تبدیلی کا حکم لگایا جائے گا۔  البتہ اگر دوبارہ آنے والا خون اکثر مدت مکمل ہونے کے بعد بھی جاری رہا تو اس صورت میں عادت سے زائد ایام میں آنے والا خون استحاضہ شمار ہوگا، جس کا حکم یہ ہے کہ اس حالت میں خاتون ہر نماز کے وقت کے لیے طہارت حاصل کرکے (تجدیدِ وضو کرکے )  تمام عبادات کرنے کی پابند ہوگی، اور جتنے دنوں کی نمازیں یا روزے رہ گئے تھے ان کی قضا کرنے کی پابند ہوگی۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں یہ عمرہ صحیح نہیں ہوا تھا، اب ان پر حرم  کی حدود میں ایک دم (قربانی) دینا ضروری ہے۔

رد المحتار میں ہے:

"(أو طاف للقدوم)؛ لوجوبه بالشروع (أو للصدر جنباً) أو حائضاً (أو للفرض محدثاً ولو جنباً فبدنة إن) لم يعده، والأصح وجوبها في الجنابة، وندبها في الحدث، وأن المعتبر الأول، والثاني جابر له، فلا تجب إعادة السعي، جوهرة. وفي الفتح: لو طاف للعمرة جنباً أو محدثاً فعليه دم ، وكذا لو ترك من طوافها شوطاً؛ لأنه لا مدخل للصدقة في العمرة ... (قوله: بلا عذر) قيد للترك والركوب. قال في الفتح عن البدائع: وهذا حكم ترك الواجب في هذا الباب اهـ أي أنه إن تركه بلا عذر لزمه دم، وإن بعذر فلا شيء عليه مطلقاً. وقيل: فيما ورد به النص فقط، وهذا بخلاف ما لو ارتكب محظوراً  كاللبس والطيب، فإنه يلزمه موجبه ولو بعذر، كما قدمناه أول الباب".

(رد المحتار، 550/2، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100815

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں