میرے شوہر نے مجھے نشے کی حالت میں 3 اپریل کو تین طلاقیں دیں، ان الفاظ کے ساتھ: "میں طلاق دیتا ہوں"۔پھر دوبارہ تین طلاقیں دیں، اور تیسری بار بھی تین طلاقیں دیں۔ یوں کل نو طلاقیں دی گئیں۔
یہ سب کچھ میرے اٹھارہ سالہ بیٹے، سولہ سالہ بیٹی اور دو چھوٹے بچوں کے سامنے ہوا۔شوہر روزانہ شراب کے نشے میں دھت ہو کر بچوں کے سامنے مار پیٹ کرتا تھا۔ہماری شادی کو بیس سال ہو چکے ہیں۔ وہ سب کے سامنے مجھے گالیاں دیتا اور فحش زبان استعمال کرتا، بلکہ گالی دینا اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتا تھا۔اس نے مجھے جان سے مارنے کی بھی کوشش کی۔3 اپریل کو طلاق دینے کے بعد سے اس نے اپنا فون نمبر بند کر دیا ہے اور ہمارا خرچہ بھی بند ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ:
1۔کیاطلاق واقع ہو چکی ہے؟
2۔اگر طلاق واقع ہو چکی ہے تو عدت کب سے شروع ہوگی؟
3۔عدت کے دوران بیوی کا خرچ کس پر ہوگا؟اور عدت کے بعد بچوں کا خرچ کس پر لازم ہوگا؟
1۔واضح رہے کہ شریعت میں شراب کے نشے کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ صورتِ مسئولہ میں، جب سائلہ کے شوہر نے تین بار کہا: 'میں طلاق دیتا ہوں'، تو ان الفاظ کے نتیجے میں سائلہ پر تین طلاقیں واقع ہو گئیں، اور وہ اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو چکی ہے۔ لہٰذا نہ ہی رجوع کی گنجائش ہے اور نہ ہی تجدیدِ نکاح کی شرعاً اجازت ہے۔اور عدّت (مکمل تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، اور اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) مکمل ہونے کے بعد وہ کسی اور جگہ نکاح کر سکتی ہے۔
2۔ عدت، طلاق کے وقت سےشروع ہوتی ہے، یعنی تین اپریل سے شروع ہوگی۔ اگر عورت حاملہ نہ ہو، تو عدت کی مدت تین ماہواریاں مکمل گزرنے تک ہوگی۔ اور اگر وہ حاملہ ہو، تو اس کی عدت بچے کی پیدائش (وضع حمل) تک ہوگی۔
3۔بیوی کی عدت کے دورانیہ کاخرچ شرعاً مرد پر لازم ہے، اور عدت کے دوران اور عدت کے بعد نابالغ بچوں کے نفقے کی ذمہ داری بھی والد پر ہی ہے۔ بلوغت کے بعد جب تک بیٹا کمانے کے قابل نہ ہو، اس کا نفقہ بھی شرعاً والد کے ذمے ہوتا ہے۔ جبکہ بیٹی، بالغ ہونے کے بعد بھی شادی تک، اس کا خرچ شرعا والد کے ذمے واجب ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي."
(کتاب الطلاق،ركن الطلاق،ج:3،ص:230،ط:سعید)
الاختيار لتعليل المختار میں ہے:
"(وطلاق السكران واقع) ، وقال الطحاوي: لا يقع، وهو اختيار الكرخي اعتبارا بزوال عقله بالبنج والدواء. ولنا أنه مكلف بدليل أنه مخاطب بأداء الفرائض، ويلزمه حد القذف والقود بالقتل، وطلاق المكلف واقع كغير السكران، بخلاف المبنج لأنه ليس له حكم التكليف، ولأن السكران بالخمر والنبيذ زال عقله بسبب هو معصية فيجعل باقيا زجرا حتى لو شرب فصدع رأسه وزال عقله بالصداع. نقول: لا يقع، والغالب فيمن شرب البنج والدواء التداوي لا المعصية، ولذلك انتفى التكليف عنهم."
(كتاب الطلاق، حكم طلاق المكره والسكران والأخرس والهازل، ج:3، ص:124، ط:دار الكتب العلمية)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230]."
(کتاب الطلاق،فصل في حكم الطلاق البائن،ج:3،ص:187،ط:دار الكتب العلمية)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها، وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية."
( کتاب الطلاق،الباب السادس في الرجعة،ج:1،ص:473،ط:دار الفکر)
نصب الرايۃ میں ہے:
"روي عن علي، وابن مسعود، وابن عباس أن ابتداء العدة في الطلاق عقيب الطلاق، وفي الوفاة عقيب الوفاة، قلت: أما حديث علي أخرجه البيهقي عنه2، قال: العدة من يوم يموت أو تطلق، انتهى."
(كتاب الطلاق، باب العدة، ج:3، ص:259، ط:مؤسسة الريان للطباعة والنشر)
فتح القدير میں ہے:
"(وابتداء العدة في الطلاق عقيب الطلاق وفي الوفاة عقيب الوفاة، فإن لم تعلم بالطلاق أو الوفاة حتى مضت مدة العدة فقد انقضت عدتها) لأن سبب وجوب العدة الطلاق أو الوفاة فيعتبر ابتداؤها من وقت وجود السبب."
(كتاب الطلاق، باب العدة، ج:4، ص:329، ط: دار الفكر)
الاختيار لتعليل المختار میں ہے:
" عدة الحرة التي تحيض في الطلاق والفسخ بعد الدخول ثلاث حيض، والصغيرة والآيسة ثلاثة أشهر، وعدتهن في الوفاة أربعة أشهر وعشرة أيام، وعدة الأمة في الطلاق حيضتان، وفي الصغر والإياس شهر ونصف، وعدتها في الوفاة شهران وخمسة أيام، وعدة الكل في الحمل وضعه.
وتجب بثلاثة أشياء: بالطلاق، وبالوفاة، وبالوط."
(كتاب الطلاق، باب العدة، ج:3، ص:172، ط:دار الكتب العلمية)
وفيہ ايضا:
"فصل (وللمطلقة النفقة والسكنى في عدتها بائنا كان أو رجعيا) أما الرجعي فلما تقدم أن النكاح قائم بينهما حتى يحل له الوطء وغيره. وأما البائن فلأنها محبوسة في حقه، وهو صيانة الولد بحفظ الماء عن الاختلاط، والحبس لحقه موجب للنفقة كما تقدم. وأما حديث «فاطمة بنت قيس أنها قالت: طلقني زوجي ثلاثا فلم يفرض لي رسول الله سكنى ولا نفقة» رده عمر وزيد بن ثابت وجابر وعائشة، قال عمر: لا ندع كتاب ربنا وسنة نبينا بقول امرأة لا ندري أصدقت أم كذبت، حفظت أم نسيت، سمعت رسول الله عليه الصلاة والسلام يقول: «للمطلقة الثلاث النفقة والسكنى ما دامت في العدة» ". ويروى: «المبتوتة لها النفقة والسكنى» ، ولأنه ورد مخالفا قوله تعالى: {أسكنوهن} [الطلاق: 6] ومخالفا للإجماع في السكنى، فإن ادعت أنها حامل أنفق عليها إلى سنتين منذ طلقها احتياطا للعدة."
(كتاب الطلاق، باب النفقة،فصل نفقة المطلق، ج:4، ص:8، ط:دار الكتب العلمية)
وفيہ ايضا:
"فصل (ونفقة الأولاد الصغار على الأب إذا كانوا فقراء) لقوله تعالى: {وعلى المولود له رزقهن وكسوتهن بالمعروف} [البقرة: 233] ."
(كتاب الطلاق، باب النفقة،فصل نفقة الأولاد الصغار، ج:4، ص:10، ط:دار الكتب العلمية)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(وكذا) تجب (لولده الكبير العاجز عن الكسب) كأنثى مطلقا وزمن ومن يلحقه العار بالتكسب وطالب علم لا يتفرغ لذلك."
(كتاب الطلاق،باب النفقة،ج:3،ص:614،ط:سعید)
فتح القدير میں ہے:
"فالإناث عليه نفقتهن إلى أن يتزوجن إذا لم يكن لهن مال، وليس له أن يؤاجرهن في عمل ولا خدمة وإن كان لهن قدرة، وإذا طلقت وانقضت عدتها عادت نفقتها على الأب."
(كتاب الطلاق، باب النفقة، ونفقة الأولاد الصغار على الأب، ج:4، ص:410، ط: دار الفكر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144610101765
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن