میں نے بخاری شریف کا ختم شروع کیا ہوا ہے، تو کیا میں ایامِ مخصوصہ میں بخاری شریف کو ہاتھ لگائے بغیر اس کو پڑھ سکتی ہوں؟ اور جیسا کہ قرآن کریم اور احادیث کی کتب کو ایامِ مخصوصہ میں اوربےوضو کپڑے سے پکڑنے کی گنجائش ہے تو کیا ہاتھوں پر کپڑے یا پلاسٹک کے دستانے پہن کر ہاتھ لگا سکتے ہیں یا نہیں؟
واضح رہے کہ ایامِ حیض میں قرآن کریم کا چھونا ممنوع اور حرام ہے، البتہ قرآن کریم کے سوا دوسری کتابیں، جیسے : وہ کتبِ تفاسیر جن میں تفسیر غالب ہو ،کتبِ احادیث،اور کتبِ فقہ وغیرہ کو چھونا اور پڑھنا جائز ہے۔ لہذا سائلہ کے لیے ایام مخصوصہ میں بخاری شریف کو پڑھنا بھی جائز ہے اور بغیر کپڑے ہاتھ لگانے کی بھی اجازت ہے، لیکن جہاں کوئی آیت لکھی ہو وہاں ہاتھ نہ لگائے اور آیتِ مبارکہ زبان سے نہ پڑھے، اگر پڑھنا ضروری ہو تو کلمہ کلمہ جدا جدا کرکے پڑھنے کی اجازت ہوگی۔
فتاوی شامی میں ہے:
"و قد جوّز أصحابنا مس كتب التفسير للمحدث ولم يفصلوا بين كون الأكثر تفسيراً أو قرآناً، ولو قيل به اعتباراً للغالب لكان حسنًا ...
(قوله: لكن في الأشباه إلخ) استدراك على قوله والتفسير كمصحف، فإن ما في الأشباه صريح في جواز مس التفسير، فهو كسائر الكتب الشرعية، بل ظاهره أنه قول أصحابنا جميعا، وقد صرح بجوازه أيضا في شرح درر البحار. وفي السراج عن الإيضاح أن كتب التفسير لا يجوز مس موضع القرآن منها، وله أن يمس غيره وكذا كتب الفقه إذا كان فيها شيء من القرآن، بخلاف المصحف فإن الكل فيه تبع للقرآن. اهـ. والحاصل أنه لا فرق بين التفسير وغيره من الكتب الشرعية على القول بالكراهة وعدمه، ولهذا قال في النهر: ولا يخفى أن مقتضى ما في الخلاصة عدم الكراهة مطلقًا؛ لأنّ من أثبتها حتى في التفسير نظر إلى ما فيها من الآيات، و من نفاها نظر إلى أن الأكثر ليس كذلك، و هذا يعم التفسير أيضًا."
(كتاب الطهارة، سنن الغسل، 1/ 177، ط: سعید)
الاشباہ و النظائر لابن نجیم میں ہے:
"وقد جوز أصحابنا رحمهم الله مس كتب التفسير للمحدث ولم يفصلوا بين كون الأكثر تفسيرا أو قرآنا، ولو قيل به اعتبارا للغالب لكان حسنًا."
(القاعدة الثانية: الأمور بمقاصدها، 96، ط: دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144501101883
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن