بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حادثہ میں بکرا آدھا کٹ جائے اور پھر ذبح کردیا جائے، تو کھانے کا کیا حکم ہے؟


سوال

ہمارے بکرے کا ایکسیڈنٹ ہوا،  جس کی وجہ سے وہ درمیان سے کٹ گیا، دونوں حصے جدا ہو گئے، اس کا آگے والا حصہ کافی تڑپ رہا تھا، تو ایک بھائی نے فوراً چھری پھیر دی، اب اس کا کیا حکم ہے؟ کیا ہم کھا سکتے ہیں؟

جواب

بصورتِ مسئولہ چوں کہ بکرے کے پچھلے حصے میں ذبح کی کوئی بھی صورت (اختیاری یا اضطراری)نہیں پائی گئی؛ اس لیے پچھلا حصہ بالکل حلال نہیں ہے، البتہ اگر آگے کی طرف کم از کم ایک تہائی حصہ (یعنی سینہ اور دل ) تھا، اور ذبح کرنے سے پہلے بکرے میں کچھ نہ کچھ جان باقی تھی، تو ذبح کے بعد آگے والا حصہ کھانا حلال ہے۔

سورة المائدة   میں ہے:

"حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَمَا اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوْذَةُ وَالْمُتَرَدِّیَةُ وَالنَّطِیْحَةُ وَمَا اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّیْتُمْ."

ترجمہ:’’اور جو گلا گھٹنے سے مرجاوے اور جو کسی ضرب سے مرجاوے اور جو اونچے سے گر کر مرجاوے اور جو کسی ٹکر سے مرجاوے اور جس کو کوئی درندہ کھانے لگے لیکن جس کو ذبح کر ڈالو۔‘‘

فائدہ:’’یعنی منخنقہ سے ما اکل السبع تک جن کا ذکر ہے ان میں سے جس کو دم نکلنے سے پہلے قاعدہ کلیہ شرعیہ کے مطابق ذبح کر ڈالو، تو وہ اس حرمت سے مستثنی ہے۔‘‘

(بیان القرآن)

بدائع الصنائع   میں ہے:

"وعلى هذا يخرج ما إذا قطع من ألية الشاة قطعة أو من فخذها أنه لا يحل المبان وإن ذبحت الشاة بعد ذلك؛ لأن حكم الذكاة لم يثبت في الجزء المبان وقت الإبانة لانعدام ذكاة الشاة لكونها حية وقت الإبانة، وحال فوات الحياة كان الجزء منفصلا وحكم الذكاة لا يظهر في الجزء المنفصل وروي أن أهل الجاهلية كانوا يقطعون قطعة من ألية الشاة ومن سنام البعير فيأكلونها فلما بعث النبي المكرم عليه الصلاة والسلام نهاهم عن ذلك فقال عليه الصلاة والسلام: ما أبين من الحي فهو ميت والجزء المقطوع مبان من حي وبائن منه فيكون ميتا."

(ص:٤٤، ج:٥، کتاب الذبائح والصیود، فصل في بيان شرط حل الأكل، ط: دار الکتب العلمية)

الفتاوي الهندية میں ہے:

"وإن قطع الثلث مما يلي الرأس فإنه يؤكل كله؛ لأن ما بين النصف إلى العنق مذبح؛ لأن الأوداج تكون من ‌القلب ‌إلى ‌الدماغ أما إذا أبان الثلث مما يلي العجز لم تتم الذكاة؛ لأنه لم يقطع الأوداج بخلاف ما إذا أبان الثلث مما يلي الرأس؛ لأنه قطع الأوداج فيتم فعل الذكاة، فيؤكل."

(ص:٤٣١، ج:٥، کتاب الصید، الباب السابع، ط: دار الفکر، بیروت)

حاشية ابن عابدين میں ہے:

"(و) المعتبر (في المتردية وأخواتها) كنطيحة وموقوذة وما أكل السبع (والمريضة) مطلق (الحياة وإن قلت) كما أشرنا إليه (وعليه الفتوى).

(قوله في المتردية) أي الواقعة في بئر أو من جبل والنطيحة: المقتولة بنطح أخرى. والموقوذة: المقتولة ضربا (قوله كما أشرنا إليه) أي من تقييده ما مر بقوله هنا (قوله وعليه الفتوى) أي فتحل بالذكاة وكذا الفتوى على اعتبار مطلق الحياة في الصيد على ما مر عن الزيلعي."

(ص:٤٧٠، ج:٦، کتاب الصید، ط: ایج ایم سعید)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

’’سوال : اگر کوئی جانورریل میں کٹ جائے ، یا مثلاً کوئی دھار دار چیز پھینک کر مارنے میں مرغ کی گردن کٹ جائے ، یا ہرن کٹ کر دو ٹکڑے ہو جائے اور دونوں ٹکڑے تڑپتے ہوں تو یہ ذبح ہو سکتا ہے یا نہیں، اگر ذبح ہو تو کس طریق پر؟ دونوں حصے حلال ہوں گے یا نہیں ؟

الجواب حامداً و مصلياً :اگر کسی جانور کے ریل سے دو ٹکڑے ہو جائیں، تو سر والے ٹکڑے کو گردن پر طریقِ معروفہ سے ذبح کر لیا جاوے، وہ حلال ہوگا اور دوسرا حصہ حرام ہوا، اگر دھار دار چیز کے ذریعہ سے مرغ ، ہرن وغیرہ کی ذبح کی گئی رگیں کٹ گئیں اور ساتھ گردن بھی تمام کٹ گئی تو اس کا کھانا درست ہے اگر چہ اس طرح کاٹنامکروہ ہے۔‘‘

(ص:٢٨٢، ج:١٧، کتاب الصید والذبائح، الفصل الثالث فی ما یصح ذبحہ وما لا یصح، ط: ادارۃ الفاروق)

فتاویٰ رحیمیہ میں ہے:

’’(سوال) بلی نے مرغی پر حملہ کر کے سرتوڑ دیا، لیکن مرغی زندہ ہے، اچھل رہی ہے تو ذبح کر کے کھانا درست ہے یانہیں؟

(الجواب) صورت مسئولہ میں اگر مرغی زندہ ہے، اور گردن کا اتنا حصہ باقی ہے کہ ذبح کر سکتےہیں، تو ذبح کر کے کھانا درست ہے، لیکن تو ڑا ہوا سر کھانا درست نہیں ہے، اور جب سر کے ساتھ پوری گردن بھی توڑ دی ہو اور ذبح کرنے کی مقدار کا حصہ نہ بچا ہو تو ذبح کرنے کا کوئی راستہ نہیں، اس کا کھانا حرام ہے۔‘‘

(ص:٦٧، ج:١٠، کتاب الذبائح، ط: دار الاشاعت، کراچی)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508102142

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں