بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گزرے سال کی زکاۃ کا حکم


سوال

میری  شادی  سات  اکتوبر  دو ہزار گیارہ کو ہوئی تھی اور بیوی نے حق مہر میں سات تولہ سونا رکھا تھا،  جو اس کی  ملکیت ہے ابھی تک،  شادی کی تاریخ سے لے کر آج تک اس کی زکوۃ کی ادائیگی باقی ہے، چوں کہ یہ سونا میرے بیوی کی ملکیت ہے،  مگر میں خوشی سے اور بیوی کی رضامندی سے اس کی تمام سالوں کی زکوۃ ادا کرنا چاہتا ہوں۔اس صورت میں کیا حکم ہے؟  کتنی مالیت کی زکوۃ ادا کرنی ہوگی؟  اور کس تاریخ سے کس تاریخ تک ادا کرنی ہوگی؟ چوں کہ قمری سال کا حساب کتاب مجھے معلوم نہیں اور نہ  گزشتہ  سالوں کا حساب صحیح طریقہ سے کرسکتاہوں، اس لیے گزارش  ہے کہ شرعی طریقہ کے مطابق حساب کتاب کرکے میری مدد اور رہنمائی فرماویں!

جواب

صورتِ   مسئولہ میں شوہر کے  لیے بیوی کی طرف سے زکوٰۃ کی ادائیگی سے پہلےاس  کے علم میں لانا ضروری ہے،تاکہ بیوی زکوٰۃ کی ادائیگی کی نیت کر لے؛ کیوں کہ نیت کے بغیر زکوٰۃ  ادا نہیں ہوتی یا پہلے سےبیوی اجازت دے دے کہ میری طرف سے زکوٰۃ ادا کردیں تو عین موقع پر بتائے بغیر بھی زکوٰۃ دینے سے ادا ہوجائے گی،  مذکورہ صورت میں سائل اپنی بیوی کی طرف سے زکات ادا کرسکتا ہے۔

اگرکسی شخص نے  گزشتہ سالوں کی زکاۃ ادا نہیں کی تو جس دن زکاۃ ادا کی جائےاس دن  کی جو قیمت ہے اس قیمت کا اعتبار ہو گا، یعنی گزشتہ سالوں کی زکات موجودہ ریٹ کے حساب سے ادا کی جائے گی؛ لہذا سونے  کی زکاۃ ادا کرتے وقت  سونے کی موجودہ قیمت کا اعتبار ہوگا، اور  گزشتہ  ہر سال کے بدلے اس کا  ڈھائی فیصد ادا کیا جائے گا، اور اس مقدار کو  اگلے سال کی زکاۃ  نکالتے وقت منہا کیا جائے گا، اسی طرح آگے بھی کیا  جائے گا، مثلاً سونے کی موجودہ مالیت کسی کے پاس  100000 روپے ہے  ، اور ایک  گزشتہ سال  کی زکات  2500 روپے  دی تو اگلے سال  کی زکاۃ  نکالتے وقت اس  رقم کو منہا کرکے بقیہ97500 روپے  کا چالیسواں حصہ زکاۃ  میں ادا کیا جائے گا، اگر چند سالوں   کی زکاۃ  نکالنے کے بعد  مال  نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) سے کم رہ جائے تو پھر  اس کی زکاۃ  ادا کرنا لازم نہیں ہوگا۔اورقمری سال کا اعتبار ہوگا، آسانی کے لیے رمضان سے دوسرےرمضان تک کا حساب  کیجیے۔

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"الزكوة واجبة على الحرّ العاقل البالغ المسلم إذا بلغ نصابًا ملكًا تامًّا و حال عليه الحول."

(کتاب الزکوۃ، ج:2، ص:217، ط:ادارۃ القرآن)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا وكل في أداء الزكاة أجزأته النية عند الدفع إلى الوكيل فإن لم ينو عند التوكيل و نوى عند دفع الوكيل جاز، كذا في الجوهرة النيرة. و تعتبر نية الموكل في الزكاة دون الوكيل، كذا في معراج الدراية. فلو دفع الزكاة إلى رجل وأمره أن يدفع إلى الفقراء فدفع، و لم ينو عند الدفع جاز."

(كتاب الزكوة، الباب الاول فى تفسير الزكوة، ج:1، ص:171، ط:مكتبه رشيديه)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولذا لو امر غيره بالدفع عنه جاز."

(کتاب الزکوۃ، ج:2، ص:270، ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"و إنما له ولاية النقل إلى القيمة يوم الأداء فيعتبر قيمتها يوم الأداء، والصحيح أن هذا مذهب جميع أصحابنا". 

(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع کتاب الزکاۃ(ج2/ ص22،ط سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100757

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں