بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گائنی ڈاکٹر کا عدت کے دوران گھر کے نچلے حصے کے کلینک میں مریض کو دیکھنے کا حکم


سوال

ایک عورت جو کہ گائنی کالوجسٹ ہیں اور ان کی رہائش اپنی کلینک کے اوپری حصے میں واقع ہے ،شوہر کی وفات کے بعد دوران عدت مذکورہ خاتون اپنے کلینک میں خواتین مریضوں کو دیکھ سکتی ہیں؟  الٹراساؤنڈ اور معائنہ وغیرہ کرسکتی ہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ عدت کے دوران عورت کا  بلا ضرورت گھر سے نکلناجائز نہیں ہے، ضرورت کی ایک صورت یہ ہے کہ عورت کے پاس عدت میں ضرورت  پوری کرنے کے اخراجات کا کوئی بند  وبست نہ ہو، اگر ضرورت کی وجہ سے نکلنا بھی پڑے تو مغرب سے پہلے گھر واپس لوٹ آئے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر  مذکورہ کلینک  کا دروازہ گھر  سے باہر  ہے اور کلینک میں داخل ہونے کے لیے گھر  سے باہر نکلنا ہوتا ہو اور مذکورہ خاتون کے پاس عدت کے ضروری اخراجات کا بند و بست ہے تو اس کے لیے عدت کے دوران اپنے کلینک جانا جائز نہیں ،تاہم اگر عدت کے دوران ضروری اخراجات کا بند و بست نہ ہو تو دن میں بقدرِ ضرورت کلینک جا کر خواتین مریضوں کو دیکھ سکتی ہے۔

اور اگر کلینک کی جگہ ایسی بنی ہو کہ الگ شمار نہ ہوتی ہو، مثلاً گھر ہی میں کلینک ہے تو اس صورت میں عدت کے دوران  شرعی پردہ کے ساتھ مریضوں کو دیکھنا جائز ہے۔

البحر الرائق  میں ہے:

"(قوله ومعتدة الموت تخرج يوما وبعض الليل) لتكتسب لأجل قيام المعيشة؛ لأنه لا نفقة لها حتى لو كان عندها كفايتها صارت كالمطلقة فلايحل لها أن تخرج لزيارة ولا لغيرها ليلًا ولا نهارًا.

والحاصل أن مدار الحل كون خروجها بسبب قيام شغل المعيشة فيتقدر بقدره فمتى انقضت حاجتها لا يحل لها بعد ذلك صرف الزمان خارج بيتها كذا في فتح القدير وأقول: لو صح هذا عمم أصحابنا الحكم فقالوا: لاتخرج المعتدة عن طلاق أو موت إلا لضرورة؛ لأن المطلقة تخرج للضرورة بحسبها ليلا كان أو نهارا والمعتدة عن موت كذلك فأين الفرق؟ فالظاهر من كلامهم جواز خروج المعتدة عن وفاة نهارا، ولو كانت قادرة على النفقة ولهذا استدل أصحابنا بحديث «فريعة بنت أبي سعيد الخدري - رحمه الله تعالى - أن زوجها لما قتل أتت النبي صلى الله عليه وسلم فاستأذنته في الانتقال إلى بني خدرة فقال لها: امكثي في بيتك حتى يبلغ الكتاب أجله» فدل على حكمين إباحة الخروج بالنهار وحرمة الانتقال حيث لم ينكر خروجها ومنعها من الانتقال وروى علقمة أن نسوة من همدان نعي إليهن أزواجهن فسألن ابن مسعود - رضي الله عنه - فقلن إنا نستوحش فأمرهن أن يجتمعن بالنهار، فإذا كان بالليل فلترجع كل امرأة إلى بيتها كذا في البدائع، وفي المحيط عزاء الثاني إلى النبي صلى الله عليه وسلم وفي الجوهرة يعني ببعض الليل مقدار ما تستكمل به حوائجها، وفي الظهيرية: والمتوفى عنها زوجها لا بأس بأن تتغيب عن بيتها أقل من نصف الليل، قال شمس الأئمة الحلواني: وهذه الرواية صحيحة اهـ. و لكن في الخانية والمتوفى عنها زوجها تخرج بالنهار لحاجتها إلى نفقتها ولا تبيت إلا في بيت زوجها اهـ.فظاهره أنها لو لم تكن محتاجة إلى النفقة لايباح لها الخروج نهارًا كما فهمه المحقق."

(كتاب الطلاق، باب العدة، فصل فى الاحداد، ج:4، ص:166، ط:دارالكتاب الاسلامى)

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: وعرفنا في الشام إطلاق البيت على ما له أربع حوائط في جملة أماكن الدار السفلية أما الأماكن العلوية فتسمى طبقة وقصرا وعلية ومشرفة وأهل مدينة دمشق عرفهم إطلاق البيت على الدار بجملتها فيحكم على كل قوم بعرفهم."

 

(كتاب الأيمان، باب اليمين في الدخول والخروج والسكنى والإتيان والركوب وغير ذلك، ج3، ص746، سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144407100186

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں