بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

13 ذو القعدة 1446ھ 11 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

گواہی چھپانے والے کا کیا حکم ہے؟


سوال

میں نے ایک مکان خریدا تھا ، جس کی مکمل قیمت  میں نے ادا کردی تھی،جس پر دو گواہ بھی تھے اور اس  مکان کو فروخت کرنے والے نے میرے نام پر بھی کردیا تھا،اب وہ فروخت کرنے والا کہہ رہا ہے کہ میرے دس لاکھ پچاس ہزار روپے باقی ہیں ،حالاں کہ میں مسجد میں قرآن مجید پر ہا تھ رکھ کر ان دو گواہوں کے سامنے حلفاً یہ بات کہہ چکا ہوں کہ میں  نے پوری  قیمت  اداکردی ہے ،اب وہ فروخت کرنے والا بندہ میرے دفتر میں درخواستیں جمع کروارہا ہے کہ اس نے قیمت میں سے دس لاکھ پچاس ہزار روپے ادا نہیں کیے اور اب میرے دو گواہوں میں سے ایک گواہ منکر ہے،وہ گواہی دینے کے لیے تیار نہیں ہے،اسی طرح جس شخص کے سامنے میں نے حلفاً یہ اقرار کیا تھااور مد مقابل نےتسلیم کیا تھا،وہ شخص بھی منکر ہے تو پوچھنایہ ہے کہ شریعت کی رو سے گواہی سے انکار کرنے والے کا یعنی گواہی  چھپانے والے  کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگرواقعۃ ً آپ  مکان  کی مکمل قیمت دو گواہوں کی موجودگی میں   فروخت کنندہ کو اداکرچکے ہيں اور  آپ کے گواہوں کی گواہی سے یہ بات ثابت  ہوچکی ہے،تو بغیر کسی معقول عذر کےگواہوں میں سے کسی کے لیے بھی  اپنی گواہی  چھپانا ناجائز ہے، گواہی نہ دینے کی صورت میں یہ گناہ گار ہوں گے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لا بأس للإنسان أن يحترز عن قبول الشهادة وتحملها، وفي باب العين من كراهية الواقعات رجل طلب منه أن يكتب شهادته، أو يشهد على عقد فأبى ذلك، فإن كان الطالب يجد غيره جاز له الامتناع عنه وإلا فلا يسعه الامتناع كذا في الذخيرة وعلى هذا أمر التعديل إذا سئل من إنسان، فإن كان هناك سواه من يعدله يسعه أن لا يجيب وإلا لم يسعه أن لا يقول فيه الحق حتى لا يكون مبطلا للحق كذا في المحيط.ويلزم أداء الشهادة ويأثم بكتمانها إذا طلب المدعي، وإنما يأثم إذا علم أن القاضي يقبل شهادته وتعين عليه الأداء، وإن علم أن القاضي لا يقبل شهادته، أو كانوا جماعة فأدى غيره ممن تقبل شهادته فقبلت قالوا لا يأثم."

(کتاب الشهادات، الباب الثاني في بيان تحمل الشهادة وحد أدائها والإمتناع عن ذلك، 452/3، ط: رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603102793

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں