بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گزشتہ زمانے کے نان نفقہ کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری بیٹی کی شادی 27 دسمبر 2020ء کوہوئی تھی ،15 دن کے بعد اس کا شوہر اپنے گھر انگلینڈ چلا گیا ،پھر میری بیٹی کے ویزے کا پروسس شروع ہوگیا ،جس میں میری بیٹی کو ایک امتحان دینا پڑا،جس کو میری بیٹی نے چار مرتبہ دینے کے بعد پاس کیا ،جس کی ایک امتحان کی فیس 31000 (اکتیس ہزار) بنتی تھی ،جو چار مرتبہ میں نے ادا کی ،جو کل ایک لاکھ بیس ہزار روپے بنتی ہے اور کوچنگ کی فیس بھی میں نے ادا کی جو60000 ( ساٹھ ہزار) روپے بنتی ہے،اس میں  22 ماہ لگ گئے ،22 ماہ میں لڑکے نے کوئی خرچہ نہیں دیا،اب اکتوبر میں ویزہ لگ گیا اور وہ میری بیٹی کو لینے آیا اور دونوں میں کسی بات پر اختلاف اور لڑائی ہوگئی،کیوں کہ وہ لڑکا پہلے سے شادی شدہ تھا اور اپنی پہلی بیوی کی ہر بات میں تعریف کیا کرتا تھا،اس پر لڑائی ہوئی اور نوبت طلاق تک پہنچ گئی ۔

برائے مہربانی آپ راہ نمائی فرمائیں کہ آیا 22 ماہ کا خرچہ اور طلاق کے بعد تین ماہ یعنی عدت کا خرچہ اور حق مہر دینے کا کیا لڑکا پابند ہے یا نہیں ؟شرعی راہ نمائی فرمائیں۔

ایک لاکھ بیس ہزار اور ساٹھ ہزار روپے جو انگلینڈ جانے کے لیے امتحان اور کوچنگ کی مد میں خرچ ہوئے ہیں ،اس میں داماد کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا،وہ ہم نے اپنی طرف سے کیا تھا اور شوہر نے 22 ماہ میں کوئی نان نفقہ نہیں دیا تھا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کی مطلقہ بیٹی کی عدت کے زمانے کا نان نفقہ (خرچہ) اس کے شوہر پر لازم ہے ،دونوں فریق آپس میں رضامندی سے اس نان نفقہ ( خرچہ) کی مقدار متعین کرلیں  اور اسی طرح سائل کی بیٹی کا حق مہر  جو نکاح کے وقت مقرر کیا گیا تھا،اگر شوہر نے اس وقت نہیں ادا کیا تھا تو اب اس کے شوہر پراس کا ادا کرنالازم ہے ۔

اور گزشتہ 22 ماہ کا خرچہ  یعنی شادی کے بعد سے اب تک جو سائل کے داماد نے اپنی بیوی یعنی سائل کی بیٹی کو نان نفقہ نہیں دیا تھا تو اس کے متعلق حکم یہ ہے کہ پہلے سے اگر عدالت نے وہ نان نفقہ متعین کیا تھا یا میاں بیوی نے آپس کی رضامندی سے طے کیا تھا تو اس صورت میں سائل کی بیٹی اپنے شوہر سے گذشتہ ان 22 ماہ کے خرچے کا مطالبہ کرسکتی ہے اورشوہر کے ذمہ  ان 22 ماہ کا خرچہ   قرض ہے  اور اگر پہلے سے عدالت کی طرف سےوہ  خرچہ متعین نہیں تھا اور نہ میاں بیوی نے آپس کی رضامندی سے طے کیا تھا تو ایسی صورت میں اب سائل کی بیٹی اپنے شوہر سے ان گذشتہ 22 ماہ کے خرچے کا مطالبہ نہیں کرسکتی اور نہ ہی شوہر پر وہ خرچہ ادا کرنا لازم ہے، البتہ اخلاق کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو رضامندی اور خوشی سے خرچہ کی مد میں رقم ادا کردے۔

نیز سائل نے اپنی بیٹی کے انگلینڈ اپنے شوہر کے پاس جانے کے  لیے ویزے کے حصول کےلیے  بیٹی کے امتحان پر جو ایک لاکھ بیس ہزار روپے خرچ کیے اور اسی طرح اس کی کوچنگ کی مد میں ساٹھ ہزارروپے ادا کیے اور اس رقم کو لگاتے وقت سائل کا اپنے داماد کے ساتھ  رقم کی واپسی کی کوئی بات طے نہیں ہوئی تھی  تو  یہ رقم لگانا سائل کی طرف سے اپنی بیٹی کےساتھ  احسان و تبرع شمار ہوگا، اب سائل اپنے  داماد سے م‍ذکورہ رقم کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وكما تستحق المعتدة نفقة العدة تستحق الكسوة كذا في فتاوى قاضي خان ويعتبر في هذه النفقة ما يكفيها وهو الوسط من الكفاية وهي غير مقدرة؛ لأن هذه النفقة نظير نفقة النكاح فيعتبر فيها ما يعتبر في نفقة النكاح."

 (كتاب الطلاق،الباب السابع عشر في النفقات،الفصل الثالث في نفقة المعتدة،558/1،ط:رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) تجب (لمطلقة الرجعي والبائن، والفرقة بلا معصية كخيار عتق، وبلوغ وتفريق بعدم كفاءة النفقة والسكنى والكسوة) إن طالت المدة.

(قوله وتجب لمطلقة الرجعي والبائن) كان عليه إبدال المطلقة بالمعتدة؛ لأن النفقة تابعة للعدة.. وفي المجتبى: نفقة العدة كنفقة النكاح."

(كتاب الطلاق،باب النفقة ،مطلب في نفقة المطلقة،609/3،ط:سعيد)

وفيه أيضا:

"يجب (الأكثر منها إن سمى) الأكثر ويتأكد (عند وطء أو خلوة صحت) من الزوج (أو موت أحدهما).

وأفاد أن المهر وجب بنفس العقد لكن مع احتمال سقوطه بردتها أو تقبيلها ابنه أو تنصفه بطلاقها قبل الدخول، وإنما يتأكد لزوم تمامه بالوطء ونحوه ظهر أن ما في الدرر من أن قوله عند وطء متعلق بالوجوب غير مسلم كما أفاده في الشرنبلالية: قال في البدائع: وإذا تأكد المهر بما ذكر لا يسقط بعد ذلك، وإن كانت الفرقة من قبلها لأن البدل بعد تأكده لا يحتمل السقوط إلا بالإبراء كالثمن إذا تأكد بقبض المبيع. اهـ."

(كتاب النكاح، باب المهر، 102/3، ط: سعيد)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"ولو خاصمته امرأته في نفقة ما مضى من الزمان قبل أن يفرض القاضي عليه لها النفقة لم يكن لها شيء من ذلك عندنا. وعلى قول الشافعي - رحمه الله تعالى - يقضى لها بما لم تستوف من النفقة الماضية. وأصل المسألة أن النفقة لا تصير دينا إلا بقضاء القاضي، أو التراضي عندنا. وعند الشافعي تصير دينا...وحجتنا في ذلك أن النفقة صلة والصلات لا تتأكد بنفس العقد ما لم ينضم إليها ما يؤكدها، كالهبة والصدقة من حيث إنها لا تتم إلا بالقبض..فعرفنا أن طريقه طريق الصلة، وتأكدها إما بالقضاء، أو التراضي ولأن هذه نفقة مشروعة للكفاية فلا تصير دينا بدون القضاء، كنفقة الوالدين والمولودين لا تصير دينا بمجرد مضي الزمان فكذا هنا."

(كتاب النكاح، باب النفقة، 184/5 ،ط: دار المعرفة)

العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ میں ہے :

"سئل) في رجل فرض على نفسه برضاه لزوجته وابنه الصغير منها في كل يوم كذا لنفقتهما، ومضى لذلك عدة أشهر دفع منها بعضها وامتنع من دفع الباقي بلا وجه شرعي، فهل يلزمه الباقي؟

(الجواب): نعم؛ لأن النفقة لاتصير دينًا إلا بالقضاء أو الرضا، كما في التنوير (أقول:) هذا مسلم بالنظر إلى نفقة الزوجة فإنها لاتسقط بمضي المدة بعد فرضها، وأما بالنظر إلى نفقة الصغير فهو مبني على ما مر قبل صفحة عن الزيلعي من أنه كالزوجة وقد علمت ما فيه."

( كتاب الطلاق، باب النفقة، 74/1 ، ط: دار المعرفة)

وفيه أيضا:

"المتبرع ‌لا ‌يرجع ‌بما تبرع به على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره."

(العقود الدرية في تنقيح الفتاوي الحامدية ، كتاب المداينات ، 226/2، ط: دار المعرفة )

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144404101084

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں