میری بہن کی شادی مئی 1997 میں ہوئی،اور اس کو مہرمیں ساڑھے سات تولہ سونا ملا، اس سونے کی انہوں نے اب تک ایک دفعہ بھی زکات ادا نہیں کی، اس سونے کے علاوہ میری بہن کے پاس کوئی نقدی رقم نہیں تھی، اب یہ پوچھنا ہے کہ اتنے سالوں کی زکات کتنی اور کس طریقے سے ادا کریں؟
صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کی بہن کی ملکیت میں مئی 1997 سے لے کر اب تک صرف ساڑھے سات تولہ سونا ہی رہا، اس کے ساتھ نقد رقم یا مال زکات میں سے کچھ بھی ملکیت میں نہیں رہا تو ایسی صورت میں سائل کی بہن پر صرف پہلے سال کی زکات واجب ہے، اس کے بعد کے سالوں کی زکات لازم نہیں ہے، لہذا سونے کی مالیت نکلواکر اس کا ڈھائی فیصد بطور زکات ادا کردیا جائے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"فأما إذا كان له ذهب مفرد فلا شيء فيه حتى يبلغ عشرين مثقالا فإذا بلغ عشرين مثقالا ففيه نصف مثقال؛ لما روي في حديث عمرو بن حزم «والذهب ما لم يبلغ قيمته مائتي درهم فلا صدقة فيه فإذا بلغ قيمته مائتي درهم ففيه ربع العشر» وكان الدينار على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم مقوما بعشرة دراهم وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال لعلي: «ليس عليك في الذهب زكاة ما لم يبلغ عشرين مثقالا فإذا بلغ عشرين مثقالا ففيه نصف مثقال» وسواء كان الذهب لواحد أو كان مشتركا بين اثنين أنه لا شيء على أحدهما ما لم يبلغ نصيب كل واحد منهما نصابا عندنا، خلافا للشافعي."
(كتاب الزكاة، فصل مقدار الواجب في زكاة الفضة،ج: 2، ص: 2، ط: دار الكتب العلمية)
و فیہ ایضاً:
"إذا كان لرجل مائتا درهم أو عشرين مثقال ذهب فلم يؤد زكاته سنتين يزكي السنة الأولى، وليس عليه للسنة الثانية شيء."
(كتاب الزكاة، الشرائط التي ترجع على من عليه المال، ج: 2، ص: 7، ط: دار الكتب العلمية)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144512101501
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن