بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گزشتہ سالوں کی زکوۃ کی ادائیگی کا طریقہ


سوال

میری شادی 1999 میں ہوئی، اور اب اس کو 22 سال ہونے کو ہیں، اس دوران شادی کے لفافے، بچوں کے پیسے اور کچھ زیورات بھی جمع ہوئے، ان پیسوں سے میں نے گھر وغیرہ خریدے اور اسے کرائے پر دیے، اور اب تک اس کے منافع استعمال کر رہا ہوں، تین چار سال پہلے میں نے ایک موٹی رقم بغیر اندازے کے زکوۃ میں دی اور یہ معلوم نہیں ہے کہ اس سے پچھلے سالوں کی زکوۃ ادا ہوئی بھی یا نہیں؟ چلیں! اس کو چھوڑ دیں، اب مجھے کوئی ایسی ترکیب بتائیں جس سے میری پورے 22 سال کی زکوۃ آج تک ادا ہو جائے، مجھ پر بار بھی نہ ہو اور میں مطمئن بھی ہو جاؤں، تفصیل سے بتا دیں، یہ بھی بتا دیں کہ اس کا بہترین مصرف کیا ہے؟

جواب

سائل کی ملکیت میں بالغ ہونے کے بعد جس وقت پہلی مرتبہ بقدرِ نصاب مال (سونا ،چاندی ،نقد رقم،مال تجارت ) آیا تھا، اس کے ٹھیک ایک سال بعد سے اس پر سالانہ زکوۃ کی ادائیگی واجب تھی،  اب اُس کو چاہیے کہ اپنے تمام گزشتہ سالوں کی مالیت کا اندازہ لگائے  اور اس کا ڈھائی فیصد بطورِ زکوۃ دے ،اگر غالب گمان یا حسابات سے کچھ اندازہ ہوجائے کہ گزشتہ سالوں میں کتنی کتنی زکوۃ واجب تھی تو اسی کے حساب سے ادا کرے۔ اگر کسی طرح بھی اندازہ نہ ہوسکے تو موجودہ مالیت کے حساب سے کل قابلِ زکوۃ اموال کا ڈھائی فیصد نکال لے، اس کے بعد اگلے سال کی زکوۃ نکالتے وقت پہلے سال کی زکوۃ  کی مقدار (ڈھائی فیصد) کو  بقیہ مال سے منہا کرکے حساب لگائے، پھر اس سے اگلے سال کا حساب کرتے ہوئے گزشتہ دوسالوں کی زکوۃ کی مقدار کو منہا کرکے بقیہ کل مال کا ڈھائی فیصد نکالے، اسی طرح ہرسال کا حساب کرتے ہوئے گزشتہ سالوں کی زکوۃ کی مقدار منہا کرکے زکوۃ دے، اگر چند سال کی زکوۃ کا حساب کرنے کے بعد نصاب سے کم  مالِ زکوۃ  رہ  جائے تو  پھر زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔

بہتر یہ ہے کہ تمام سالوں کی جتنی رقم بنے وہ نوٹ کی جائے، اگر تمام رقم فوری ادا کرنا ممکن نہ ہو تو تھوڑا تھوڑا کرکے ادا کی جا سکتی ہے،  اگر یقینی حساب لگانا مشکل ہو تو اندازے سے کچھ زیادہ ادا کردی جائے، نیز جو رقم تین چار سال پہلے زکوۃ کی مد میں دی تھی اس کو بھی زکوۃ  کے حساب میں شامل کر لیا جائے۔

یاد رہے کہ جو مکان کرایہ پر دینے کے لیے خریدا گیا ہو اس مکان کی مالیت پر زکوۃ لازم نہیں ہوتی، ہاں! سال مکمل ہونے پر کرایہ کی مد میں وصول کی گئی رقم اگر موجود ہو تو اس پر زکوۃ لازم ہو گی۔

جو رقم یا پیسے یا ہدایا بچوں کے ہوتے ہیں ان کا حکم یہ ہے کہ   وہ بچوں ہی کے مصرف میں استعمال کی جائے، والد کا اس رقم کو اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں۔

پھر زکوۃ کا مصرف کون ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ہر وہ شخص  جس کے  پاس بنیادی ضرورت اور استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان نہ ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو ،  اور وہ  سید/ ہاشمی نہ ہو، وہ زکوۃ کا مستحق ہے۔

رشتہ داروں میں والدین اور اولاد، اسی طرح  میاں بیوی کا ایک دوسرے کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہے۔اس کے علاوہ رشتہ داروں میں اگر کوئی فرد مستحق ِ زکوۃ موجود ہو  تو  اسے زکوۃ دینے میں دوہرا اجر ہوگا، زکوۃ دینے کا بھی اور صلہ رحمی کا بھی۔

اگر رشتہ داروں میں ایسا کوئی مستحقِ زکوۃ شخص نہ ہو تو دینی مدارس ( جہاں طلباء رہائش پذیر ہوں )میں یہ رقم دی جا سکتی ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام) بالرفع صفة ملك، خرج مال المكاتب. أقول: إنه خرج باشتراط الحرية على أن المطلق ينصرف للكامل، ودخل ما ملك بسبب خبيث كمغصوب خلطه إذا كان له غيره منفصل عنه يوفي دينه (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد) سواء كان لله كزكاة وخراج أو للعبد، ولو كفالة أو مؤجلا، ولو صداق زوجته المؤجل للفراق ونفقة لزمته بقضاء أو رضا، بخلاف دين نذر وكفارة وحج لعدم المطالب، ولا يمنع الدين وجوب عشر وخراج  وكفارة (و) فارغ (عن حاجته الأصلية) لأن المشغول بها كالمعدوم. وفسره ابن ملك بما يدفع عنه الهلاك تحقيقا كثيابه أو تقديرا كدينه  نام ولو تقديرا) بالقدرة على الاستنماء ولو بنائبه."

(کتاب الزکوۃ،   2/ 259- 263، سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100004

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں