بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گذشتہ سالوں کا خرچہ بیوی کو نہیں دیا اس کا حکم


سوال

میرے شوہر نے مجھے 24/5/2022 کو طلاق دی،(طلاق نامہ منسلک ہے)،بغیر کسی وجہ کہ،یہ مجھے کچھ خرچہ نہیں دیتے تھے،میں نے خرچہ مانگا اس پر انہوں نے مجھے طلاق دی،گذشتہ خرچہ جو نہیں دیا تھا،تو اس کا کیا حکم ہے؟(کوئی خرچہ مقرر نہیں تھا)نیز جو حق مہر ایک لاکھ روپے طے ہوا تھا،وہ ابھی تک ادا نہیں کیا،ان کی  والدہ مجھے بار بار فون کرکے کہہ رہی ہیں اپنا سامان اٹھالیں ،اب کیا میں ان کے نکاح میں  ہوں یا نہیں،؟اور کیا اس کے اوپر میرا کوئی خرچہ ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ شوہر پر بیوی کا نان نفقہ لازم ہے،نان نفقہ سے مراد کھانا،پینا ،رہائش اور کپڑے،اس کی مقدار کی تعیین عرف پر ہے،تاہم اس کے علاوہ جو خرچہ ہے وہ لازم  اس وقت ہو گا جب عدالت فیصلہ کردےیا میاں بیوی آپس کی رضامندی سے طےکرلیں،لہذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے شوہر پر   گذشتہ سالوں کا خرچہ مقرر نہ ہونے کی وجہ سے دینا لازم نہیں،البتہ  مہر کا ادا کرنا شوہر کے ذمہ واجب ہے،اگر ادا نہ کیا تو سخت گناہ ہوگا،نیز جب شوہر نے ایک طلاق دے دی تو اس سے ایک رجعی طلاق واقع ہوگئی،البتہ شوہر کے پاس رجوع کا اختیار ہے،تاہم عدمِ رجوع کی صورت میں عدت گزارنے کے بعد عورت  دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے :

"قال النبي صلى الله عليه وسلم: من نكح امرأةً وهو يريد أن يذهب بمهرها فهو عند الله زان يوم القيامة". (4/360)
ترجمہ:جو شخص کسی عورت سے نکاح کرے اور مہر ادا کرنے کی نیت نہ رکھتاہو وہ عنداللہ زانی ہے۔

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"وأصل المسألة أن النفقة لاتصير دينًا إلا بقضاء القاضي أو التراضي عندنا."

(کتاب النكاح، باب النفقة ج:5،ص:184، ط: دارالمعرفة)

تنقیح الحامدیہ میں ہے:

"سئل) في رجل فرض على نفسه برضاه لزوجته وابنه الصغير منها في كل يوم كذا لنفقتهما، ومضى لذلك عدة أشهر دفع منها بعضها وامتنع من دفع الباقي بلا وجه شرعي، فهل يلزمه الباقي؟

(الجواب): نعم؛ لأن النفقة لاتصير دينًا إلا بالقضاء أو الرضا، كما في التنوير (أقول:) هذا مسلم بالنظر إلى نفقة الزوجة فإنها لاتسقط بمضي المدة بعد فرضها، وأما بالنظر إلى نفقة الصغير فهو مبني على ما مر قبل صفحة عن الزيلعي من أنه كالزوجة وقد علمت ما فيه."

( كتاب النکاح، باب النفقة (1 /74)، ط. دار المعرفة)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثاً في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجاً غيره نكاحاً صحيحاً ويدخل بها، ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية، ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولاً بها أو غير مدخول بها، كذا في فتح القدير، ويشترط أن يكون الإيلاج موجباً للغسل وهو التقاء الختانين، هكذا في العيني شرح الكنز". 

(كتاب الطلاق، ص:473، ج:1، ط:رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144311100268

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں