بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گزشتہ رمضان کے روزوں کی قضا کیسے کی جائے؟


سوال

 ایک عورت نے ایک رمضان المبارک کے روزے نہیں رکھے کسی بیماری کی وجہ سے اور اس کی وہ بیماری ابھی تک ختم نہیں ہوئی تھی کہ اگلا رمضان آگیا اور اس نے اس رمضان کے روزے رکھ لیےتو اب اس پر اس چھوڑے ہوئے رمضان کے روزے لازم ہوں گے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کسی عذر کی وجہ سے رمضان کے روزے چھوٹ جائیں تو عذر رفع ہوتے ہی جلد از جلد ان کی قضا کرنی چاہیے،اگلے رمضان تک گزشتہ سال کے روزوں کی قضا نہ کرنا ناپسندیدہ عمل ہے،البتہ اگر کوئی شخص گزشتہ رمضان کے روزوں کی قضا نہ کرسکا، یہاں تک کہ آئندہ سال کا رمضان آگیا توپہلے   اسے موجودہ رمضان کے فرض روزے رکھنے ہوں گے اور رمضان المبارک کے بعد گزشتہ روزوں کی قضا کرے گا،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگرمذکورہ خاتون نے گزشتہ رمضان المبارک کے روزوں کی قضا نہیں کی اور اگلا رمضان آگیا اور اس نے اس رمضان کے روزے رکھ لیے تو اس کے  ذمے چھوڑے ہوئے رمضان کے روزے رکھنا لازم   ہیں،  ذمے   سے ساقط نہیں ہوئے۔

تبیین الحقائق میں ہے:

"(فإذا ‌جاء ‌رمضان آخر قدم الأداء على القضاء) ؛ لأنه في وقته وهو لا يقبل غيره ويصوم القضاء بعده وهذا بخلاف قضاء الصلوات فإنها على الفور ولا يباح التأخير إلا بعذر."

(كتاب الصوم، ‌‌فصل في عوارض الفطر في رمضان، ج:2، ص: 203، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

'' (فإن ماتوا فيه) أي في ذلك العذر (فلا تجب) عليهم (الوصية بالفدية) لعدم إدراكهم عدة من أيام أخر (ولو ماتوا بعد زوال العذر وجبت) الوصية بقدر إدراكهم عدة من أيام أخر، وأما من أفطر عمداً فوجوبها عليه بالأولى، (وفدى) لزوماً (عنه) أي عن الميت (وليه) الذي يتصرف في ماله (كالفطرة) قدرا (بعد قدرته عليه) أي على قضاء الصوم (وفوته) أي فوت القضاء بالموت، فلو فاته عشرة أيام فقدر على خمسة فداها، فقط (بوصيته من الثلث) متعلق بفدى، وهذا لو له وارث، وإلا فمن الكل، قهستاني (وإن) لم يوص  و (تبرع وليه به جاز) إن شاء الله، ويكون الثواب للولي، اختيار۔

 (قوله: فإن ماتوا إلخ) ظاهر في رجوعه إلى جميع ما تقدم حتى الحامل والمرضع ، وقضية صنيع غيره من المتون اختصاص هذا الحكم بالمريض والمسافر. وقال في البحر: ولم أر من صرح بأن الحامل والمرضع كذلك، لكن يتناولهما عموم قوله في البدائع من شرائط القضاء القدرة على القضاء، فعلى هذا إذا زال الخوف أياماً لزمهما بقدره، بل ولا خصوصية فإن كل من أفطر بعذر ومات قبل زواله لا يلزمه شيء، فيدخل المكره والأقسام الثمانية. اهـ.ملخصاً من الرحمتي (قوله: أي في ذلك العذر) على تقدير مضاف أي في مدته (قوله: لعدم إدراكهم إلخ) أي فلم يلزمهم القضاء، ووجوب الوصية فرع لزوم القضاء وإنما تجب الوصية إذا كان له مال في شرح الملتقى، ط (قوله: بقدر إدراكهم إلخ) ينبغي أن يستثنى الأيام المنهية؛ لما سيأتي أن أداء الواجب لم يجز فيها، قهستاني. وقديقال: لا حاجة إلى الاستثناء؛ لأنه ليس بقادر فيها على القضاء شرعاً بل هو أعجز فيها من أيام السفر والمرض؛ لأنه لو صام فيها أجزأه، ولو صام في الأيام المنهية لم يجزه، رحمتي.''

(کتاب الصوم ، فصل فی العوارض المبیحة لعدم الصوم، ج:2، ص:423، ط : سعید)

وفيه ايضاً:

"(وقضوا) لزوما (ما قدروا بلا فدية و) بلا (ولاء) لأنه على التراخي ولذا جاز التطوع قبله بخلاف قضاء الصلاة.(و) لو جاء رمضان الثاني (قدم الأداء على الق۔۔۔ضاء)."

(کتاب الصوم ، فصل فی العوارض المبیحة لعدم الصوم، ج:2، ص:423، ط : سعید)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"وإن جاء الرمضان الثاني، ولم يقض الأول قدم الأداء على القضاء كذا في النهر الفائق."

(کتاب الصوم ،الباب السادس في النذر، ج:1، ص: 208، ط : دارالفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408102517

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں