بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مطلقہ کا گزشتہ مدت کا نفقہ شوہر پر لازم ہے یا نہیں؟ عدت کا نفقہ لازم ہے یا نہیں؟


سوال

میں نے اپنی بیوی کو 16 مئی کو فون کے ذریعے تین طلاقیں دی تھیں، یہ الفاظ کہے تھے: ’’میں اپنے پورے ہوش و حواس میں آپ کو طلاق دیتا ہوں‘‘ طلاق دینے کے بعد لڑکی والے اب مجھ سے طلاق کی مقررہ عدت کے نان نفقے کا مطالبہ کررہے ہیں، ہماری شادی کو 14 مہینے ہوئے ہیں وہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ان چودہ مہینوں میں سے  صرف دو مہینوں کا نان نفقه شوہر نے ادا کیا ہے، اب بقیہ ایک سال کا نان نفقہ بھی ادا کرے، اب میرا سوال یہ ہے کہ (1) اس ایک سال کا نان نفقہ میرے ذمہ لازم ہے یا نہیں؟(2)  اسی طرح طلا ق کی عدت کیا ہوگی؟(3)  اور اس دوران کا نان نفقہ میرے ذمہ لازم ہوگا یا نہیں؟ 

جواب

(1) واضح رہے کہ بیوی کاگزشتہ مدت کا نفقہ  صرف دو صورتوں میں لیا جاسکتا ہے:

(الف) قاضی (عدالت ) نے خرچہ طے کیا ہو۔

(ب) فریقین نے باہمی رضامندی سے کسی  مقدار کا تعین کرلیا ہو۔

لہذا اگر آپ نے واقعۃ ً اپنی بیوی کو گزشتہ ایک سال کانفقہ نہیں دیا اور  نفقہ کے تعین میں مذکورہ بالا دو صورتوں میں سے کوئی ایک صورت بھی پائی جاتی ہو تو مطلقہ بیوی گزشتہ ایک سال  کے نفقہ کا مطالبہ کرسکتی ہے اور اس کا ادا کرنا آپ کے پر لازم ہوگا اور اگر ان  دو صورتوں میں سے کوئی صورت نہیں پائی جاتی تو گزشتہ ایک سال کے نفقے کی ادائیگی آپ پر لازم نہیں ہوگی۔

(2)  اگر حمل نہ ہو تو طلاق کی عدت تین ماہواریاں ہے اور اگر حمل ہو تو عدت کی مدت وضع حمل (بچہ جننے) تک ہے۔ 

(3)اگر مطلقہ شوہر کے گھر  یا شوہر کی اجازت و رضامندی سے میکے میں عدت گزاررہی ہو تو عدت کا نفقہ شوہر پر لازم ہوگا اور اگر شوہر کی اجازت و رضامندی کے بغیر از خود میکے جاکر عدت گزاررہی ہو تو پھر عدت کا نفقہ شوہر پر لازم نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

" (والنفقة لا تصير دينا إلا بالقضاء أو الرضا) أي اصطلاحهما على قدر معين أصنافا أو دراهم، فقبل ذلك لا يلزم شيء، وبعده ترجع بما أنفقت ولو من مال نفسها بلا أمر قاض. 

(قوله : والنفقة لا تصير دينا إلخ) أي إذا لم ينفق عليها بأن غاب عنها أو كان حاضرا فامتنع فلا يطالب بها بل تسقط بمضي المدة."

(كتاب الطلاق، باب النفقة، مطلب لا تصير النفقة دينا إلا بالقضاء أو الرضا،3/ 594، ط: سعيد)

فتاوى هنديہ میں ہے:

" المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى كان الطلاق رجعيا أو بائنا، أو ثلاثا حاملا كانت المرأة، أو لم تكن كذا في فتاوى قاضي خان الأصل أن الفرقة متى كانت من جهة الزوج فلها النفقة، وإن كانت من جهة المرأة إن كانت بحق لها النفقة، وإن كانت بمعصية لا نفقة لها، وإن كانت بمعنى من جهة غيرها فلها النفقة فللملاعنة النفقة والسكنى والمبانة بالخلع والإيلاء وردة الزوج ومجامعة الزوج أمها تستحق النفقة، وكذا امرأة العنين إذا اختارت الفرقة، وكذا أم الولد والمدبر إذا أعتقا، وهما عند زوجيهما، وقد بوأهما المولى بيتا واختارتا الفرقة، وكذا الصغيرة إذا أدركت اختارت نفسها، وكذا الفرقة لعدم الكفاءة بعد الدخول كذا في الخلاصة."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات،الفصل الثالث في نفقة المعتدة،1/ 557،ط:رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100850

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں