بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گزشتہ کل کی نماز میں وقوع فساد یاد آنے کے بعد صاحب ترتیب کے لیے ادا کردہ وقتی نمازوں کا حکم


سوال

 ایک آدمی صاحبِ  ترتیب تھا ،امام صاحب نے عشاء کی نماز پڑھائی تو امام صاحب کو کوئی عذر تھا جس کی وجہ سے امام صاحب نے دوسرے دن اعلان کیا کہ کل کی عشاء کی نماز دوبارہ لوٹا دیں وہ نماز ادا نہیں ہوئی ہے ،تو اب یہ صاحبِ  ترتیب شخص کیا کرے گا ؟اس کی ترتیب ساقط ہوگی یا نہیں ،یا یہ باقی پانچ نمازیں دوبارہ پڑھے گا ۔قرآن وحدیث کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں!

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں    یہ   شخص  بدستور  صاحبِ  ترتیب ہے؛ کیوں کہ کسی  بھی شخص  کے  صاحبِ  ترتیب  رہنے  سے متعلق قاعدہ  یہ ہے کہ اس کے ذمہ یا تو کوئی  قضا نماز  نہ  ہو یا پھر پانچ یا اس سے کم نمازوں کی قضا  اس کے ذمے  لازم ہو۔

جیساکہ "عمدۃ الفقہ  "میں ہے :

"صاحبِ  ترتیب وہ ہے جس کے ذمہ کوئی قضا نماز نہ ہو یا پانچ نمازوں تک کی قضا اس کے ذمہ ہو خواہ وہ پانچ یا اس سے کم نمازیں نئی ہوں یا پرانی ، مسلسل ہوں یا متفرق ، یا نئی پرانی   مل کر ہوں اور خواہ  حقیقتًا قضا ہوں یا حکمًا."

(عمدۃ الفقہ ،ج:2،ص:347 ط:ادارہ مجددیہ)

اور یہ شخص  فقط  امام کی اقتدا  میں  فاسد ہونے والی نماز عشاء کی قضا کرے، بقیہ پانچ نمازیں ادا شمار ہوں گی ان کی قضا لازم  نہیں۔ 

واضح رہے  عشاء کی فاسد نماز کے بعد ادا کی گئیں پانچوں نمازیں ادا شمار  ہوں گی، قضاءِ  حکمی کا ان پر اطلاق نہ ہوگا؛ کیوں کہ قضاءِ حکمی کے  لیے گزشتہ قضاکا علم ہوتے  ہوئے اگلی نمازیں پڑھی جاتی  ہیں ، جب کہ مذکورہ صورت میں نمازی کو گزشتہ نماز عشاء کی  قضاکا علم ہی نہیں ہے ۔

"عمدۃ الفقہ "میں ہے :

"حکمًا قضا کی مثال یہ ہے کہ کسی صاحبِ ترتیب شخص کی کوئی نماز قضا ہوگئی اور  اس کے بعد  اس قضا کے یاد ہوتے ہوئے اس نے پانچ یا زیادہ وقتی نمازیں پڑھ لیں اور  اس عرصہ میں اس قضا نماز کو باوجود  یاد  ہونے اور  وقت کی گنجائش ہونے کے نہ پڑھا ہو تو وہ ایک قضا نماز حقیقتًا و حکمًا قضا ہے اور یہ  پانچ نمازیں صرف حکمًا قضا ہیں ۔"

(عمدۃ الفقہ ،ج:2،ص:353،ط:ادارہ مجددیہ )

"الدر المختار مع ردالمحتار  "(فتاوی شامی) میں ہے :

"و حاصله أنه يسقط الترتيب إذا نسي الفائتة و صلى ما هو مرتب عليها من وقتية أو فائتة أخرى، و كذا يسقط بنسيان إحدى الوقتيتين؛ كما لو صلى الوتر ناسيا أنه لم يصل العشاء ثم صلاها لا يعيد الوتر، لقولهم إنه لو صلى العشاء بلا وضوء والوتر والسنة به يعيد العشاء والسنة لا الوتر لأنه أداه ناسيا أن العشاء في ذمته فسقط الترتيب أفاده ح. قلت: ونظيره أيضا ما في البحر عن المحيط: لو صلى العصر ثم تبين له أنه صلى الظهر بلا وضوء يعيد الظهر فقط لأنه بمنزلة الناسي."

(الدر المختار مع رد المحتار ، ج: 2 ، ص: 68 ، کتاب الصلوۃ ، باب قضاء الفوائت ، ط: ایچ ایم سعید).

"المحیط البرہانی" میں  ہے :

"وأما إذا ذكرها بعد أيام فقد ذكر الشيخ الإمام الزاهد فخر الإسلام علي البزدوي رحمه الله: أنه لا تجوز الوقتية أيضاً، ونسب هذا القول إلى مشايخه وأشار إلى المعنى، فقال وقت التذكر وقت الفائتة، قال عليه السلام: «من نام عن صلاة أو نسيها، فليصلها إذا ذكرها فإن ذلك وقتها» فإن صلى الوقتية فقد صلاها في غير وقتها، فلا يجوز، وذكر محمد رحمة الله عليه في «الأصل» : أنه يجوز. هكذا ذكر الحاكم في «المنتقى» : عن بشر بن الوليد عن أبي يوسف رحمهم الله: أنه تجوز الوقتية، وهكذا ذكر الفقيه أبو الليث رحمه الله في «عيون المسائل» ، وعليه الفتوى۔"

( المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی ، ج : 1 ص : 531،کتاب الصلوۃ ، الفصل العشرون فی قضاء الفائتہ ،ط :  دارالکتب العلمیۃ )

فتاوی عالمگیریہ میں ہے :

"ويسقط الترتيب عند كثرة الفوائت وهو الصحيح، هكذا في محيط السرخسي وحد الكثرة أن تصير الفوائت ستا بخروج وقت الصلاة السادسة وعن محمد - رحمه الله تعالى - أنه اعتبر دخول وقت السادسة، والأول هو الصحيح، كذا في الهداية۔"

(فتاوی عالمگیریہ ، ج: 1 ص:123، کتاب الصلاۃ، باب الحادی عشر فی قضاء الفوائت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102116

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں