بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

گزشتہ سالوں کی زکاۃ موجودہ مارکیٹ کی قیمت کے اعتبار سے ادا کی جائے گی۔


سوال

ایک خاتون کی شادی فروری 1993ء میں ہوئی۔ شادی کے موقع پر خاتون کو کچھ سونے کے زیورات والدہ کی طرف سے جبکہ کچھ شوہر کی طرف سے ملے اور اس طرح خاتون صاحب نصاب بن گئی۔ خاتون نے 2023ء تک اپنے زیور و دیگر اموال کی زکوۃ ادا نہیں کی۔ ان 30 سالوں کے عرصے میں خاتون نے کچھ زیورات بیچے جبکہ کچھ نئے بھی بنوائے جن کے سال اور تواریخ خاتون کو اندازے سے یاد ہیں جبکہ پوری طرح یاد نہیں۔ علاوہ ازیں خاتون کو اس عرصے کے دوران کیش رقم و دیگر اموال کا حجم بھی یاد نہیں۔ اب اگر خاتون پچھلا سارا واجب الادا زکوۃ ادا کرنا چاہتی ہے تو اس صورت میں چند سوالات عرض ہیں؛ 1. چونکہ خاتون کو صاحب نصاب بننے، زیور گٹھنے اور بڑھنے کی تواریخ قوی طور پر یاد نہیں، تو اس صورت میں ان تواریخ کا اندازہ کیسے لگایا جائے؟ 2. سونے کی فی تولہ قیمت اس عرصے میں بڑھتی رہی ہے، اب ہر سال کی زکوۃ کا حساب اس سال کے سونے کی قیمت پر یا موجودہ قیمت پر ہوگا؟ 3. چونکہ اس عرصے کے دوران کیش رقم و دیگر اموال کا بھی ٹھیک طرح سے اندازہ نہیں، اسلئیے اس کا تعین کیسے کیا جائے؟ 4. زکوۃ پوری ایک ساتھ ادا کرنا ضروری ہوگا یا وقفوں میں بھی کرسکتی ہے۔ 5.نیز کیا اس صورت میں وصیت بھی کرسکتی ہے؟ اس استفتاء پر فتوی کے ساتھ ساتھ اگر مفتیان کرام مندرجہ ذیل دستاویز بھی (آسانی سے ممکن ہو تو) فراہم کردیں تو عین نوازش ہوگی۔ 1992/1993 کے مستند اسلامی کیلنڈر 1993 سے 2023 تک کے ماہانہ فی تولہ سونے کے بھاؤ مستند زکوۃ کے حساب کا فارم یا ایکسل شیٹ وغیرہ جزاکم اللہ خیرا کثیرا

جواب

واضح رہے کہ جب کوئی شخص نصاب کے بقدر مال کا مالک بن جائے تو جب تک  وہ صاحب نصاب رہے  تب تک اس پر ہر سال ،تمام اموال  زکوۃ میں سے چالیسواں  حصہ (ڈھائی فیصد) زکوۃ ادا کرنا  لازم ہوتا ہے۔لہذا اگر کسی  نے صاحب بننے کے بعد کئی سال تک زکوۃ ادا نہیں    کی ہو تو اس پر گزشتہ تمام سالوں کی زکوۃ ادا کرنا ضروری ہوگا  جس کا طریقہ یہ ہے کہ جس وقت زکوۃ ادا  کرنا ہو، اس وقت سونے اور چاندی کی  موجودہ  مارکیٹ  کی قیمت کے اعتبار سے  گذشتہ سالوں کی زکوۃ ادا کی جائی ،اس طرح کہ  پوری مالیت معلوم کرنے کے بعد سب سے پہلے ،پہلے سال   کی   ڈھائی  فیصد زکوۃ نکالے،پھر اس طرح دوسرے سال کی   زکوۃ نکالتے وقت  کل  مالیت سےسابقہ سال کی زکوۃ  کی رقم منہا(منفی)       کیا  جائے ،اور پھر بقایا سے ڈھائی فیصد نکالے،اس  طرح گذشتہ تمام سالوں کی زکوۃ نکالتے نکالتے جب سونا ،چاندی   اور نقدی کی مجموعی مالیت، مقدار نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت)سے کم ہوجائے،تو اس کے بعد کے سالوں کی زکوۃ  نکالنا لازم نہیں ہے۔

اس تمہید کے بعد  سوالات کے جوابات درجہ ذیل ہیں؛

1۔اگر تواریخ معلوم نہیں  تو غور فکر کے بعد جس تاریخ   کا غالب گمان ہوجائے  وہی متعین ہوگی۔اگر کسی تاریخ کے بارے میں گمان غالب قائم نہ ہو تو خود کوئی  قمری تاریخ متعین کرلے۔

2۔گزشتہ تمام سالوں کی  زکوۃ  موجودہ مارکیٹ کی قیمت  کے اعتبار سے  ادا کی جائے گی۔

3۔گزشتہ  سالوں کی نقد اموال  جب معلوم نہیں ،تو اندازۃ  لگا کر  تعیین کرے کہ گزشتہ سالوں میں ہر سال میں کتنی    نقدی تھی اور اس دھائی فیصد  زکوۃ نکالے۔ یاد رہے کہ اندازہ لگاتے وقت کم اندازہ نہ ہو  بلکہ کچھ زیادہ ہی  لگائے تاکہ زکوۃ  ذمہ میں باقی نہ رہے۔

اگر اندازہ لگانا  بالکل مشکل ہو تو  اس صورت میں  موجودہ مال سے   اتنے  سالوں کی زکوۃ نکالی جائے جتنے سالوں کی زکوۃ ادا نہیں کی ہے  جیسے سوال میں جس خاتون نے  تیس سالوں  کی زکوۃ ادا نہیں کی ہے تو وہ تیس  مرتبہ موجودہ مال سے زکوۃ  نکالے اس طریقہ کے مطابق جو اوپر لکھا گیا ہے۔

4۔گزشتہ تمام سالوں کی زکوۃ بہتر یہ ہے کہ  اکٹھی دی جائے ،لیکن اگر وقفے وقفے سے تھوڑی تھوڑی (قسط قسط) کرکے ادا  کی جائے تو بھی درست ہے۔

5۔جی ہاں اس صورت میں وصیت بھی کرسکتی ہے، بلکہ وصیت کرنا اس پر لازم ہے، تاکہ ترکہ سے ان کی زکوۃ کا حق اد کیا جاسکے۔

در مختار مع الرد میں ہے:

"(هي) لغة الطهارة والنماء، وشرعا (تمليك) خرج الإباحة، فلو أطعم يتيما ناويا الزكاة لا يجزيه إلا إذا دفع إليه المطعوم كما لو كساه بشرط أن يعقل القبض إلا إذا حكم عليه بنفقتهم (جزء مال) خرج المنفعة، فلو أسكن فقيرا داره سنة ناويا لا يجزيه (عينه الشارع) وهو ربع عشر نصاب حولي خرج النافلة والفطرة (من مسلم فقير) ولو معتوها (غير هاشمي ولا مولاه) أي معتقه، وهذا معنى قول الكنز تمليك المال: أي المعهود إخراجه شرعا (مع قطع المنفعة عن المملك من كل وجه) فلا يدفع لأصله وفرعه (لله تعالى) بيان لاشتراط النية".

(كتاب الزكوة ،256/2 ،ط:سعيد)

وفيه ايضا:

"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول لحولانه عليه (تام) (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد)... قوله: لحولانه عليه) أي لأن حولان الحول على النصاب شرط لكونه سببا، وهذا علة للنسبة".

(كتاب الزكوة، 2/259،ط:سعيد)

وفيه ايضا:

‌‌"باب زكاة المال أل فيه للمعهود في حديث «هاتوا ربع عشر أموالكم» فإن المراد به غير السائمة لأن زكاتها غير مقدرة به. (نصاب الذهب عشرون مثقالا والفضة مائتا درهم كل عشرة) دراهم (وزن سبعة مثاقيل)".

(كتاب الزكوة، باب زكاة المال، 295/2 ، ط:سعيد)

المبسوط للشیبانی میں ہے:

"قلت فإذا ‌أخذها بعد سنين قال يزكيها للسنة الأولى خمسا وعشرين درهما فهذه زكاة الألف ويزكي السنة الثانية ألفا غير خمسة وعشرين،قلت فإن توالت عليه سنون زكى لأول سنة ألفا كاملا ثم ينقص في كل سنة تلك الزكاة التي زكى أبدا كذلك حتى تنقض من مائتي درهم قال نعم وليس في أقل من مائتي درهم زكاة ولا صدقة".

(كتاب الزكوة،باب زكوة المال،2/ 82،ط:ادارة القرآن )

   بدائع الصنائع  میں ہے:

"وأما وجوب الزكاة فمتعلق بالنصاب إذ الواجب جزء من النصاب، واستحقاق جزء من النصاب يوجب النصاب إذ المستحق كالمصروف … وبيان ذلك أنه إذا كان لرجل مائتا درهم أو عشرين مثقال ذهب فلم يؤد زكاته سنتين يزكي السنة الأولى، وليس عليه للسنة الثانية شيء عند أصحابنا الثلاثة، وعند زفر يؤدي زكاة سنتين، وكذا هذا في مال التجارة، وكذا في السوائم إذا كان له خمس من الإبل السائمة مضى عليها سنتان ولم يؤد زكاتها أنه يؤدي زكاة السنة الأولى وذلك شاة ولا شيء عليه للسنة الثانية، ولو كانت عشراً وحال عليها حولان يجب للسنة الأولى شاتان وللثانية شاة، ولو كانت الإبل خمساً وعشرين يجب للسنة الأولى بنت مخاض وللسنة الثانية أربع شياه. ولو كان له ثلاثون من البقر السوائم يجب للسنة الأولى تبيع أو تبيعة ولا شيء للسنة الثانية وإن كانت أربعين يجب للسنة الأولى مسنة وللثانية تبيع أو تبيعة". 

(کتاب الزکاۃ،2/7، ط: سعید)

وفيهایضا:

"وإنما له ولاية النقل إلى القيمة يوم الأداء فيعتبر قيمتها يوم الأداء، والصحيح أن هذا مذهب جميع أصحابنا".

( كتاب الزکوۃ، 2/22 ،ط:سعید)

المبسوط للسرخسی  میں ہے:

"فإن الاجتهاد في الأحكام الشرعية جائز للعمل به وذلك عمل بغالب الرأي ثم جعل مدركا من مدارك أحكام الشرع وإن كان لا يثبت به ابتداء، فكذلك التحري مدرك من مدارك التوصل إلى أداء العبادات، وإن كانت العبادة لا تثبت به ابتداء، والدليل عليه أمر الحروب، فإنه يجوز العمل فيها بغالب الرأي مع ما فيها من تعريض النفس المحترمة للهلاك.... فيجوز أن يكون غالب الرأي طريقا للوصول إليه إذا عرفنا هذا فنقول: بدأ الكتاب بمسائل الزكاة وكان الأولى أن يبدأ بمسائل الصلاة لأنها مبتدأة في القرآن، وكأنه إنما فعل ذلك لأن معنى حق العبد في الصدقة أكثر فإنه يحصل بها سد خلة المحتاج أو لأنه وجد في باب الصدقة نصا وهو حديث يزيد السلمي على ما بينه فبدأ بما وجد فيه النص ثم عطف عليه ما كان مجتهدا فيه، ومسألة الزكاة على أربعة أوجه: أحدها أن يعطي زكاة ماله رجلا من غير شك ولا تحر ولا سؤال فهذا يجزيه ما لم يتبين أنه غني لأن مطلق فعل المسلم محمول على ما يصح شرعا وعلى ما يصح فيه تحصيل مقصوده وعلى ما هو المستحق عليه حتى يتبين خلافه، فإن الفقر في القابض أصل فإن الإنسان يولد ولا شيء له، والتمسك بالأصل حتى يظهر خلافه جائز شرعا، فالمعطي في الإعطاء يعتمد دليلا شرعيا فيقع المؤدى موقعه ما لم يعلم أنه غني فإذا، علم ذلك فعليه الإعادة لأن الجواز كان باعتبار الظاهر ولا معتبر بالظاهر إذا تبين الأمر بخلافه فإن شك في أمره بأن كان عليه هيئة الأغنياء أو كان في أكبر رأيه أنه غني ومع ذلك دفع إليه فإنه لا يجزيه ما لم يعلم أنه فقير، لأن بعد الشك لزمه التحري".

(كتاب التحري،186/10، ط:دارالمعرفة بيروت)

البحر الرائق میں ہے:

"لو ‌مات ‌من ‌عليه الزكاة لا تؤخذ من تركته لفقد شرط صحتها، وهو النية إلا إذا أوصى بها فتعتبر من الثلث كسائر التبرعات".

(كتاب الزكوة ، فصل شروط اداء الزكاة، 369/2، ط:دارالكتب العلمية)

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"لو اوصى باداء الزكاة يجب تنفيذ الوصية  من ثلث ماله".

(كتاب الزكوة، فصل من جملة الاسباب المسقطة للزكاة موت من عليه، 296/2 ، ط:ادارة القرآن و العلوم الاسلامية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408101004

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں