بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گزشتہ سالوں کے روزوں کے فدیہ کا حکم


سوال

میری والدہ محترمہ گردوں کی مریضہ تھیں تقریبا دس (10)سال تک روزے نہیں رکھے اب خالق حقیقی سے جا ملی ہیں ۔

1۔اب ان کے ذمے جو روزے رہتے ہیں کیا ان کا فدیہ ادا کرنا ضروری ہے؟

2۔اگر ادا کرنا ضروری ہے تو کس حساب سے فدیہ ادا کریں؟ مطلب اس وقت صدقہ فطر کی رقم کی مقدار  80 یا 100 روپے تھی ، اب 300 تک پہنچی ہے۔

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں سائل کی والدہ نے  اگر اپنے قضاء شدہ روزوں کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت کی تھی، تو اس صورت میں ان کے مال میں سے ہی فدیہ اداکیاجائے گا،اور کل مال کے ایک تہائی حصہ سے فدیہ کی رقم نکالی جائے گی، اگر تمام قضا  روزوں کا فدیہ ایک تہائی ترکے میں سے ادا ہوجائے تو بہتر، اگر مکمل ادا نہ ہو تو بقیہ  روزوں کا فدیہ ادا کرنا ورثاء کے ذمے لازم نہیں ہوگا، تاہم اگر وہ بطورِ تبرع مرحوم کے بقیہ فوت شدہ  روزوں کی طرف سے فدیہ دینا چاہیں تو یہ ان کی طرف سے احسان ہوگا۔ 

اور اگرآپ کی والد ہ مرحومہ نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت نہیں کی تو شرعاً ورثاء پران کے قضا  روزوں کا  فدیہ ادا کرنا لازم نہیں، البتہ اگر ورثاء  از خود باہمی رضامندی سےیاسائل  اپنی جانب سے ان کےروزوں کا فدیہ  ادا کردیں ،تووالد پر احسان ہو گا۔

ایک روزے  کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہے ، اور ایک صدقہ فطر  پونے دو کلو گندم یا اس کاآٹا یا اس کی موجودہ قیمت ہے۔ فدیہ کا مصرف وہی ہے جو زکاۃ کا مصرف ہے یعنی مسلمان فقیر جو سید اور ہاشمی نہ ہو اور صاحبِ نصاب بھی نہ ہو ، لہذا ورثاء ان کے قضاء شدہ(دس سالہ)روزوں کا اندازا  لگاکرفدیہ اداکرنا چاہیں تو مذکورہ طریقے پر ادا کرسکتے ہیں۔

2۔صورتِ مسئولہ میں سائل اگر والدہ مرحومہ کی طرف سے ان کے قضا  شدہ روزوں  کا فدیہ دینا چاہتا ہے ،تو ایک روزے کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہے ،لہذا  سائل جس دن  فدیہ ادا کرے گا اسی  ادائیگی والے دن کی قیمت کا اعتبار ہو گا۔

قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالی ہے :

"فَمَنْ كانَ مِنْکُمْ مَرِیْضاً اَوْعَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّ ۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ."(بقره :184)

ترجمہ"پھر جو شخص   تم میں  بیمار ہو یا سفر میں ہو ،تو وہ دوسرے ایام کا شمار رکھنا ہے ."(بیان القرآن )

فتاوی شامی میں ہے :

" المریض إذا تحقق الیأس من الصحة فعلیه الفدیة لکل یوم من المرض."

(كتاب الصوم، فصل في العوارض المبيحة للصوم،ج:2 ،ص:427،ط؛سعيد)

وایضاً :

"(‌وجاز ‌دفع ‌القيمةفي زكاة وعشر وخراج وفطرة ونذر وكفارة غين الأعتاق) وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا يوم الأداء."

( كتاب الزكاه،باب زکاۃ الغنم ،ج :2  ،ص:285،ط:سعيد)

بدائع الصنائع  ميں هے :

"لأن الواجب الأصلي عندهما هو ربع عشر العين وإنما له ولاية النقل إلى القيمة يوم الأداء فيعتبر قيمتها يوم الأداء."

  (کتاب الزکاۃ، فصل و اما صفة الواجب فى اموال التجارة ،ج :2،ص:22،ط :دارالكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے :

"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة (وكذا حكم الوتر)
ثم اعلم أنه إذا أوصى بفدية الصوم يحكم بالجواز قطعا لأنه منصوص عليه. وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات إنه يجزيه إن شاء الله تعالى، فعلق الإجزاء بالمشيئة لعدم النص، وكذا علقه بالمشيئة فيما إذا أوصى بفدية الصلاة لأنهم ألحقوها بالصوم احتياطا لاحتمال كون النص فيه معلولا بالعجز فتشمل العلة الصلاة وإن لم يكن معلولا تكون الفدية برا مبتدأ يصلح ماحيا للسيئات فكان فيها شبهة كما إذا لم يوص بفدية الصوم فلذا جزم محمد بالأول ولم يجزم بالأخيرين، فعلم أنه إذا لم يوص بفدية الصلاة فالشبهة أقوى.
واعلم أيضا أن المذكور فيما رأيته من كتب علمائنا فروعا وأصولا إذا لم يوص بفدية الصوم يجوز أن يتبرع عنه وليه."

(کتاب الصلاۃ ،باب قضاء الفوات،ج:2،ص:72، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409100020

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں