بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کے پاس دو گائے ہوں اور ان کا دودھ گھر استعمال ہوتا ہو تو اس پر قربانی کا حکم


سوال

کوہستان میں اکثر والدین اپنی بیٹی کو اس کی شادی کے بعد گائے دیتے ہیں اور بعد میں جاکر ان کی بڑھوتری بھی ہوجاتی ہے اور گائے کا دودھ بھی گھر میں استعمال کیا جاتا ہے ،اس بارے کچھ علماء کی رائے یہ ہے کہ گھر کی ضرورت چونکہ شوہر کی ذمہ داری ہے ،عورت پر نہیں ،لہذا ایک یا دو گائے ہو ں تو اس پر قربانی واجب  ہے ،جب کہ کچھ علماء کی رائے یہ ہے کہ گائے جتنی بھی ہو اگر اس کا دودھ گھر میں استعمال ہوتا ہے تو اس پر قربانی واجب نہیں ہے؛  لہذا آپ حضرات اس بارے وضاحت دیں کہ آیا اس صورت میں قربانی واجب ہوگی یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ قربانی کے وجوب  کا نصاب وہی ہے جو صدقۂ فطر کے وجوب کا ہے، یعنی جس عاقل، بالغ ، مقیم ، مسلمان  مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں، ذمہ میں  واجب الاداء اخراجات منہا کرنے کے بعد ضرورت سےزائد اتنا سامان  موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر یا اس سے زائد ہو (خواہ ضرورت سے زائد مال نقدی ہو یا سونا چاندی ہو یا کسی اور شکل میں ہو، اسی طرح مالِ تجارت نہ بھی ہو، مثلاً کسی کے پاس دو مکان ہیں، ایک رہائش کے لیے اور ایک ایسے ہی خالی اور  بند پڑا ہوا ہے، اور ضرورت سے زائد ہے ) تو قربانی کے نصاب میں اس کو  بھی شامل کیا جائے گااور ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہوگی۔ 

لہذا صورت مسئولہ میں  بہ شرطِ صحتِ سوال اگر واقعۃ ً عورت کی ملکیت میں صرف ایک گائے یا دو گائے  ہوں اور اس ایک یا دو گاۓ کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر یا اس سے زائد ہو توعورت پر قربانی واجب ہوگی۔باقی  چوں کہ عورت کے نان و نفقہ کی ذمے داری  شرعاًشوہر  پر  واجب ہے، اس لیے مذکورہ گا ئے عورت کے حق میں ضرورت سے زائد شمار ہوگی اور ان دونوں گائے  کا دودھ جو گھر میں استعمال ہوتا ہے وہ عورت کی طرف سے تبرع  و احسان  ہوگا  ۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(وأما) (شرائط الوجوب) : ‌منها ‌اليسار وهو ما يتعلق به وجوب صدقة الفطر دون ما يتعلق به وجوب الزكاة."

(كتاب الأضحية،الباب الأول في تفسير الأضحية،٢٩٢/٥،ط:المطبعة الكبرى)

فیہ ایضا:

"وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلاً عن حوائجه الأصلية، كذا في الاختيار شرح المختار، ولايعتبر فيه وصف النماء، ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية، ووجوب نفقة الأقارب، هكذا في فتاوى قاضي خان".

( كتاب الزكاة،الباب الثامن في صدقة الفطر،١٩١/١،ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر) كما مر (‌لا ‌الذكورة ‌فتجب على الأنثى) خانية (وسببها الوقت) وهو أيام النحر."

(‌‌كتاب الأضحية،٣١٢/٦،ط:دار الفكر)

فیہ ایضا:

"(قوله: واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية، ولو له عقار يستغله فقيل: تلزم لو قيمته نصاباً، وقيل: لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل: قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفاً، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم."

(‌‌كتاب الأضحية،٣١٢/٦،ط:دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"تجب علی الرجل نفقة امرأته المسلمة والذمیة والفقیرة والغنیة دخل بها أو لم یدخل، كبیرةً کانت المرأة أو صغیرةً، یجامع مثلها، کذا في فتاویٰ قاضي خان. سواء کانت حرةً أو مکاتبةً، كذا في الجوهرة النیرة."

(  كتاب الطلاق ، الباب التاسع عشر فی النفقات ، ٥٤٤/١،ط:رشیدیة)

وفیہ ایضاً:

"وإن كفل للمرأة رجل بنفقة كل شهر لم يكن كفيلا إلا بنفقة شهر واحد، ولو قال الكفيل: كفلت لك عن زوجك بنفقة سنة كان كفيلا بنفقة السنة، وكذا لو قال: كفلت لك بالنفقة أبدا أو ما عشت كان كفيلا بالنفقة ما دامت في نكاحه، وإذا كفل إنسان بنفقة شهر، أو سنة فطلقها زوجها بائنا، أو رجعيا يؤخذ الكفيل بنفقة العدة."

(کتاب الطلاق،الباب السابع عشرفی النفقات ،٥٥٣/١،ط:رشیدیة)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144411102460

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں