بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گٹکے ماوے کھانے اور اس کے کاروبار کا حکم


سوال

گٹکا،ماوا وغیرہ کا کاروبار کرنا کیسا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جہاں تک گٹکااور ماوا کھانے کاحکم ہےتوچوں کہ یہ بات معروف ہے کہ اگرچہ گٹکا اور ماوا بنانے میں حرام اجزاء شامل نہیں ہیں،تاہم اس میں چونے،کتھے اور تمباکو وغیرہ کے ساتھ دیگر چیزوں کا اتنی مقدار میں استعمال کیا جاتا ہے جو کہ ان کے اکثر کھانے والوں کے لیے منہ اور گلے کی دیگر بیماریوں سمیت کینسر جیسی مؤذی بیماری کاسبب بھی ہے،اسی لیے ملک کے اکثر اطباء گٹکے اور ماوے کے استعمال کو سخت مضر صحت تصور کرتے ہیں،اس لیے اس کا مطلقاً(ایک،دو دفعہ)کھالینا بھی کراہت سے خالی نہیں،اور اس کو اتنی مقدار میں استعمال کرنا یا عادت بنالیناکہ جتنی مقدار سے ایک عام آدمی(جو کہ ان چیزوں کو کھانے کا عادی نہ ہو) کو منہ اور گلے کی بیماریوں کااندیشہ ہو،مکروہِ تحریمی(قریب،قریب حرام) ہے، اس لیے اس سے بہرصورت اجتناب لازم ہے۔

رہی بات اس کے کاروبار کی تو اولاً واضح رہے کہ کسی ملک کے قوانین اگر شریعت کے خلاف نہ ہوں تو وہاں کے ہر ایک رہائشی پر ان قوانین کی پاسداری کرنا ضروری ہے،اور ان قوانین کے خلاف کرناقانونی چوری ہے،جو کہ اپنی جان اور عزت کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔

اور ہماری اب تک کی معلومات کے مطابق حکومت کی طرف سےگٹکے اور ماوے کی خرید وفروخت پر پابندی عائد ہے،اور خلاف ورزی کرنے پر جرمانہ اور قید وغیرہ جیسی سزائیں بھی متعین ہیں،اگر یہ بات واقعۃً درست ہےتوقانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گٹکے اور ماوے کا کاروبار کرناجائز نہیں ہوگا۔

اور اگر حکومت کی طرف سے پابندی نہیں ہے،تب بھی ان اشیاء کے مضرِ صحت ہونے کی وجہ سے ان کی خریدوفروخت مکروہ ہے۔

بدائع الصنائع  ميں ہے:

"‌طاعة ‌الإمام فيما ليس بمعصية فرض، فكيف فيما هو طاعة."

(ص:١٤٠،ج:٧،کتاب السير،فصل في بيان أحكام البغاة ،ط:دار الكتب العلمية)

رد المحتار على الدر المختار  میں ہے:

"(ويحرم أكل البنج والحشيشة).

(قوله ويحرم أكل البنج)...عن شرح شيخ الإسلام: أكل قليل السقمونيا والبنج مباح للتداوي، ما زاد على ذلك إذا كان يقتل أو يذهب العقل حرام اهـ فهذا صريح فيما قلناه مؤيد لما سبق بحثناه من تخصيص ما مر من أن ما أسكر كثيره حرم قليله بالمائعات، وهكذا يقول في غيره من الأشياء الجامدة المضرة في العقل أو غيره، يحرم تناول ‌القدر ‌المضر منها دون القليل النافع، لأن حرمتها ليست لعينها بل لضررها."

(ص:٤٥٧،ج:٦،کتاب الأشربة،ط:ایج ایم سعید)

تكملة حاشية ابن عابدينمیں ہے:

"بقي هنا شئ لم أر من نبه عليه عندنا، وهو أنه إذا اعتاد أكل شئ من الجامدات التي لا يحرم قليلها ويسكر كثيرها حتى صار يأكل منها القدر المسكر ولا يسكره سواء أسكره في ابتداءى الأمر أو لا، فهل يحرم عليه استعماله نظرا إلى أنه يسكر غيره أو إلى أنه قد أسكره قبل اعتياد، أم لا يحرم نظرا إلى أنه طاهر مباح؟ والعلة في تحريمه الإسكار ولم يوجد بعد الإعتياد وإن كان فعله الذي أسكره قبله حراما، كمن اعتاد أكل شئ مسموم حتى صار يأكل ما هو قاتل عادة ولا يضره كما بلغنا عن بعضهم، فليتأمل،نعم صرح الشافعية بأن العبرة لما يغيب العقل بالنظر لغالب الناس بلا عادة."

(ص:١٤،ج:٧،كتاب الأشربة،ط:ايج ايم سعيد)

موسوعة القواعد الفقهية  میں ہے:

"كل شيء كره أكله والإنتفاع به على وجه من الوجوه فشراؤه وبيعه مكروه، وكل شيء لا بأس بالانتفاع به فلا بأس ببيعه وفي لفظ: كل ما جاز اقتناؤه وانتفع به صار مالا وجاز بذل العوض عنه."

(ص:٤٣٧،ج:٨،‌‌القاعدتان السّابعة والثّامنة بعد المئة بيع ما لا ينتفع به،ط:مؤسسة الرسالة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504101562

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں