بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گھٹنے میں درد کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھنا


سوال

میں کھڑے ہو کر  نماز پڑھتی ہوں دن بھر،مغرب یا عشاء ان دو اوقات میں اور کبھی کسی اوروقت میں بھی نیچے  بیٹھتے وقت گھٹنے میں ناقابل  برداشت درد اٹھتاہے ،جب بھی بیٹھنے لگوں تب میں پھر بیٹھ کر ہی نماز ادا کر لیتی ہوں،  کیا ایسا کرنا درست ہے ؟

جواب

واضح رہے ازروئے شرع بیٹھ کر نماز پڑھنے کی اجازت اس  کو ہےجو  بیماری کی وجہ سے کھڑے ہونے پر قادر نہیں، یا کھڑے ہونے پر قادر ہے لیکن زمین پر سجدہ کرنے پر قادر نہیں ہے، یا قیام و سجود کے ساتھ نماز پڑھنے کی صورت میں بیماری میں اضافہ یا شفا ہونے میں تاخیر یا ناقابلِ برداشت درد کا غالب گمان ہو ۔ 

صورتِ  مسئولہ اگر  نماز  کے  دوران  اٹھنے بیٹھنے میں دقت  ہورہی ہو، لیکن تکلیف قابلِ برداشت ہو تو نماز کھڑے ہوکر ہی پڑھنی  چاہیے؛ کیوں کہ کسی قابلِ برداشت معمولی درد یا کسی موہوم تکلیف کی وجہ سے فرض نماز میں قیام کو ترک کردینا اور  بیٹھ کر نماز پڑھنا جائز نہیں۔تاہم  اگر نماز کے دوران اٹھنے بیٹھنے میں ناقابلِ برداشت درد ہوجیسا کہ سائلہ کاکہنا ہے تو پھر نماز بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت ہے،اور بہتر یہ ہے کہ  پوری نماز زمین پر بیٹھ کر  ادا کرے ،پھر اگر سائلہ زمین پر سجدہ کرسکتی ہے تو سجدہ اشارے سے کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، تاہم اگر سجدہ کرنے میں بھی تکلیف ہو تو رکوع اور سجدہ اشارے سے کرے،رکوع میں بنسبت سجدہ کے جھکاؤ  ذرا کم ہو،اور سجدہ میں بنسبت رکوع کے جھکاؤ زیادہ ہو اکہ دونوں کے درمیان فرق واضح ہو،اور پوری نماز بیٹھ کر ادا کرے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(من تعذر عليه القيام) أي كله (لمرض) حقيقي وحده أن يلحقه بالقيام ضررقال في البحر: أراد بالتعذر التعذر الحقيقي، بحيث لو قام سقط، حكمي بأن (خاف زيادته أو بطء برئه بقيامه أو دوران رأسه أو وجد لقيامه ألما شديدا... صلى قاعدًا."

(باب صلوة المريض، ج:2، ص:95، ط: سعيد)

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"و إن لم يكن كذلك أي بما ذكر و لكن يلحقه نوع مشقة لايجوزترك القيام."

(باب صلوة المريض، ج:2، ص:667، ط:رشيديۃ)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144311101265

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں