بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

گٹکے کا کاروبار کرنا


سوال

ایک شخص چھالیہ خرید کر گٹکا ماوا بناتا ہےاور اسے بیچتا ہے ،باوجود اس کے کہ یہ بات مسلم ومصدقہ ہے کہ گٹکا ماوا کھانے سے کینسر سمیت دیگر امرض لاحق ہوتے ہیں جو جان لیوا ثابت ہوتے ہیں اور دوسری طرف گورنمنٹ نے اس قسم کے کاروبار کو منشیات کی فہرست میں شامل کیا ہے ،جس کی خریدوفروخت پر قانونی و عدالتی کاروائی عمل میں لائی جاتی ہےاور اس کیس میں دفعات وغیرہ شامل ہوتی ہیں اور اس کے خریدنے اور بیچنے والے کو مجرم تصور کیا جاتا ہے اور اس کے مرتکب کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑتاہےاور اگر کاروبار کرتا بھی ہے تو بھاری بھرکم رشوت دینی پڑتی ہے یا پھر اداروں سے چھپ کر کام کرنا پڑتا ہے۔

سوال یہ ہے گٹکا ماوا کا کاروبار حلال ہے یا حرام ہے ؟رشوت کے ساتھ یا بنا رشوت کے ایسی کمائی کا کیا حکم ہے؟اور جو شخص گٹکا کھاتا ہے اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں گٹکا اور ماوا میں اگر ناپاک یا حرام اشیاء شامل کی جاتی ہوں تو ایسی صورت میں ان کا بنانا اور فروخت کرنا دونوں ناجائز ہیں،اور کمائی بھی حرام ہے۔

اور اگر ان دونوں میں حرام اشیاء شامل نہ ہوں تب  بھی مضرِّ صحت ہونے کی وجہ سے قانونی طور پر  ان دونوں کا کھانا اور بیچنا سخت ممنوع ہے جس پر قانوناً سزا بھی دی جاتی ہے، لہذا حکومتی قانون کی پاسداری اور حفظانِ صحت کا لحاظ کرتے ہوئے گٹکا اور ماوا کھانے اور اس کے بیچنے سے احتراز کرنا چاہیے تاکہ صحت بھی محفوظ رہے اور قانونی خلاف ورزی بھی نہ ہو۔اگرچہ اس صورت میں آمدنی کو حرام نہیں کہا جائے گا ، نیز اس کے کاروبار کے لیے رشوت دینا جائز نہیں ہے۔

احكام القرآن لعلامہ ظفر احمد عثمانی میں ہے:

"و هذا الحكم أي وجوب طاعة الأمير يختص بما إذا لم يخالف أمره الشرع، يدل عليه سياق الآية فإن الله تعالى أمر الناس بطاعة أولي الأمر بعد ما أمرهم بالعدل، في الحكم تنبيهًا على أن طاعتهم واجبة ماداموا على العمل."

(طاعة الأمير فيما لا يخالف الشرع، النساء،2/291، ط: ادارة القرآن)

فتاوی شامی میں ہے:

"والحاصل أن جواز البیع یدور مع حل الانتفاع".

(باب بيع الفاسد، ج:5، ص:69، ط:ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه في قاعدة: الأصل الإباحة أو التوقف، ويظهر أثره فيما أشكل حاله كالحيوان المشكل أمره والنبات المجهول.

قلت: فيفهم منه حكم النبات الذي شاع في زماننا المسمى بالتتن فتنبه.

 (قوله: ربما أضر بالبدن) الواقع أنه يختلف باختلاف المستعملين ط (قوله: الأصل الإباحة أو التوقف) المختار الأول عند الجمهور من الحنفية والشافعية كما صرح به المحقق ابن الهمام في تحرير الأصول (قوله: فيفهم منه حكم النبات) وهو الإباحة على المختار أو التوقف. وفيه إشارة إلى عدم تسليم إسكاره وتفتيره وإضراره، وإلا لم يصح إدخاله تحت القاعدة المذكورة ولذا أمر بالتنبه."

(كتاب الأشربۃ، ج:6، ص:460، ط:ایچ ایم سعید)

تفسیر قرطبی میں ہے:

"{ ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة }الآية :195
التقدير لا تلقوا أنفسكم بأيديكم كما تقول : لا تفسد حالك برايك والتهلكة ( بضم اللام ) مصدر من هلك يهلك هلاكا وهلكا وتهلكة أي لا تأخذوا فيما يهلككم
وقال الطبري : قوله ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة عام في جميع ما ذكر لدخوله فيه إذ اللفظ يحتمله."

(سورة البقرة،ج:2،ص:359،ط:دارالکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100419

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں