بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گٹکا،ماوا اور چورا وغیرہ کو کھانے اور بیچنے کا حکم


سوال

 آج کل حکومت کی طرف سے گٹکا، ماوا اور چورا وغیرہ کے کھانے اور بیچنے پر پابندی ہے، پھر ان چیزوں کو کھانے اور بیچنے کا کیا حکم ہوگا ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں گٹکا ،ماوا اور چورا   مضرِّ  صحت ہونے کی وجہ سے قانونی طور پر  ان کی خرید و فروخت سخت ممنوع ہے،  جس پر قانوناً سزا بھی دی جاتی ہے، لہذا حکومتی قانون کی پاس داری اور حفظانِ صحت کا لحاظ کرتے ہوئے گٹکا اور ماوا وغیرہ کھانے اور اس کے بیچنے سے احتراز کرنا چاہیے،تاکہ صحت بھی محفوظ رہے اور قانونی خلاف ورزی بھی نہ ہو،اصل مدار مضر صحت ہونے یا نہ ہونے اور قانونًا ممانعت اوراجازت پر ہے اور چوں کہ ماواوغیرہ کا مضر صحت ہونا معروف ہےا ور قانونًا بھی اس کی ممانعت ہے اس لیے گریز لازم ہے، باقی اس کی آمدنی حرام نہیں ہے۔

 فتاوی شامی میں ہے:

"والحاصل أن جواز البیع یدور مع حل الانتفاع."

(باب بيع الفاسد، 5 /69، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"وفي الأشباه في قاعدة: الأصل الإباحة أو التوقف، ويظهر أثره فيما أشكل حاله كالحيوان المشكل أمره والنبات المجهول.

قلت: فيفهم منه حكم النبات الذي شاع في زماننا المسمى بالتتن فتنبه.

 (قوله: ربما أضر بالبدن) الواقع أنه يختلف باختلاف المستعملين ط (قوله: الأصل الإباحة أو التوقف) المختار الأول عند الجمهور من الحنفية والشافعية كما صرح به المحقق ابن الهمام في تحرير الأصول (قوله: فيفهم منه حكم النبات) وهو الإباحة على المختار أو التوقف. وفيه إشارة إلى عدم تسليم إسكاره وتفتيره وإضراره، وإلا لم يصح إدخاله تحت القاعدة المذكورة ولذا أمر بالتنبه."

(كتاب الاشربة،6 /460، ط:سعید)

تفسیر قرطبی میں ہے:

"{ ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة } [الآية :195]التقدير لا تلقوا أنفسكم بأيديكم كما تقول : لا تفسد حالك برايك والتهلكة ( بضم اللام ) مصدر من هلك يهلك هلاكا وهلكا وتهلكة أي لا تأخذوا فيما يهلككم. وقال الطبري : قوله: {ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة} عام في جميع ما ذكر لدخوله فيه إذ اللفظ يحتمله."

(سورة البقرة،2 /363،ط:دارالکتب المصریۃ)

قرآن مجید میں ہے:

"وَاَوْفُوْا بِالْعَهْدِ ۚاِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْــــُٔـوْلًا ."(سورۃالاسراء، آیت:34)

ترجمہ: عہد کو پورا کرو؛ کیوں کہ قیامت کے دن عہد کے بارےمیں انسان جواب دہ ہوگا۔(بيان القرآن)

بدائع الصنائع میں ہے:

"لأنّ طاعة الإمام فيما ليس بمعصية فرض، فكيف فيما هو طاعة؟"

(كتاب السير، فصل فى احكام البغاة، 140/7،ط:دارالکتب العلمیۃ)

فقط والله  اعلم


فتوی نمبر : 144405101578

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں