1:گٹکا اور ماوا جوکہ نوجوان نسل کی صحت کو نہ صرف تباہ وبرباد کررہا ہے بلکہ تیزی سے کینسر کے پھیلنے کا سبب بھی بن رہاہے ،جس پر کراچی کے تمام بڑے ہسپتالوں کے ڈاکٹرصاحبان نے حکومت سندھ کو گٹکےاور ماوے کی روک تھام کے لئے سفارشات بھیجیں ہیں کہ روزانہ کی بنیادپرمنہ کے کینسر میں مبتلا نوجوان ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں،لہذا گٹکےاور ماوے کی روک تھام کے لئے مؤثر قانون سازی کی جائے اور اس کی روک تھام کو یقینی بنایا جائے ،جس پر حکومت سندھ نے اسپیشل آرڈینینس کے ذریعے (گٹکا ماوا ایکٹ2019)کا علیحدہ سے قانون بنایا اور آئی جی صاحب کو سخت ہدایات جاری فرمائیں کہ اس موذی کاروبار میں جو شخص بھی ملوث پایا جائے اس کے خلاف 302ضابطہ فوجداری کے تحت مقد مہ قائم کیا جائے.
اب دریافت طلب امریہ ہے:
1۔کینسرکے پھیلاؤکا سبب بننے والے کاروبار اور حکومت وقت کی سخت پابندی کے باوجود پولیس کو رشوت دے کر یہ کاروبار کرنا اور اس کاروبار سے ہونے والی آمدنی حلال ہے یاحرام ؟
2:براہ راست گٹکااور ماوا تیار کرنے کا کا رخانہ چلانا اور پولیس کو رشوت دے کر (جب کہ رشوت دینے اور لینے والے دونوں جہنمی ہیں )اس کی فروخت کرکے آمدن کمانے والے شخص کی امامت کرنا اور اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟
صورت مسئولہ میں گٹکا اور ماوا میں اگر ناپاک یا حرام اشیاء شامل کی جاتی ہوں تو ایسی صورت میں ان کا بنانا اور فروخت کرنا دونوں ناجائز ہیں،اور کمائی بھی حرام ہے۔
اور اگر ان دونوں میں حرام اشیاء شامل نہ ہوں تب بھی مضرصحت ہونے کی وجہ سے قانونی طور پر ان دونوں کا کھانا اور بیچنا سخت ممنوع ہے جس پر قانوناً سزا بھی دی جاتی ہے، لہذا حکومتی قانون کی پاسداری اور حفظانِ صحت کا لحاظ کرتے ہوئے گٹکا اور ماوا کھانے اور اس کے بیچنے سے احتراز کرنا چاہیے تاکہ صحت بھی محفوظ رہے اور قانونی خلاف ورزی بھی نہ ہو۔اگرچہ اس صورت میں آمدنی کو حرام نہیں کہا جائے گا ۔
تاہم اس کاروبار کے لیے رشوت دینا جائز نہیں ہے۔
ملحوظ رہے ماوا بھی گٹکے کی اقسام میں سےہے، ماہرین کے مطابق یہ ایک قسم کامصالحہ ہے جس میں جوزتری ،پستہ،لونگ، الائیچی، سرخ مٹی، تیزاب، چونا اور دیگر کیمائی نشہ آور مادےاستعمال کیے جاتےہیں،اور اس کےاستعمال سے جبڑے، مسوڑےاور معدہ متاثر ہوتاہے، اور منہ کے کینسر کا باعث بنتا ہے،ممکن ہے بعض جگہ یہ اجزاء استعمال نہ کیے جاتے ہوں۔
بہرحال !اصل مدار مضر صحت ہونے یا نہ ہونے اور قانونًا ممانعت اوراجازت پر ہے اور چوں کہ ماواوغیرہ کا مضر صحت ہونا معروف ہےا ور قانونًا بھی اس کی ممانعت ہے اس لیے گریز لازم ہے۔
2:اگررشوت دے کر گٹکا اورماوابیچنے والا شخص توبہ کر لیتا ہے اور آئندہ اس کاروبار کو چھوڑ دیتا ہے، تو اس کی امامت میں نماز پڑھنا درست ہوگا۔
تاہم اگر واقعۃًمذکورہ شخص اس کاروبار کورشوت کے ذریعہ جاری رکھتا ہےتو اس کی امامت مکروہ تحریمی ہوگی، یعنی اس کی امامت میں نماز پڑھنا جائز تو ہوگا، مگر بہتر ہے کہ کوئی دوسرا شخص امامت کرائے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"والحاصل أن جواز البیع یدور مع حل الانتفاع."
(باب بيع الفاسد،ج:5،ص:69،ط:ایچ ایم سعید)
وفیہ ایضاً:
"وفي الأشباه في قاعدة: الأصل الإباحة أو التوقف، ويظهر أثره فيما أشكل حاله كالحيوان المشكل أمره والنبات المجهول.
قلت: فيفهم منه حكم النبات الذي شاع في زماننا المسمى بالتتن فتنبه.
(قوله: ربما أضر بالبدن) الواقع أنه يختلف باختلاف المستعملين ط (قوله: الأصل الإباحة أو التوقف) المختار الأول عند الجمهور من الحنفية والشافعية كما صرح به المحقق ابن الهمام في تحرير الأصول (قوله: فيفهم منه حكم النبات) وهو الإباحة على المختار أو التوقف. وفيه إشارة إلى عدم تسليم إسكاره وتفتيره وإضراره، وإلا لم يصح إدخاله تحت القاعدة المذكورة ولذا أمر بالتنبه."
(كتاب الأشربة،ج:6،ص:460،ط:ایچ ایم سعید)
تفسیر قرطبی میں ہے:
"{ ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة } [الآية :195]التقدير لا تلقوا أنفسكم بأيديكم كما تقول : لا تفسد حالك برايك والتهلكة ( بضم اللام ) مصدر من هلك يهلك هلاكا وهلكا وتهلكة أي لا تأخذوا فيما يهلككم. وقال الطبري : قوله: {ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة} عام في جميع ما ذكر لدخوله فيه إذ اللفظ يحتمله."
(سورة البقرة،ج:2،:359،ط:دارالکتب العلمیة)
قرآن مجید میں ہے:
"واوفوا بالعهد فإن العهد كان مسئولا."(الإسراء، رقم الآية:34)
"ترجمہ: عہد کو پورا کرو؛ کیوں کہ قیامت کے دن عہد کے بارےمیں انسان جواب دہ ہوگا۔"
حدیث شریف میں ہے:
"عن أبي هريرة أنّ رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: آية المنافق: ثلاث إذا حدّث كذب، و إذا وعد أخلف، و إذا أوتمن خان."
(مشکاۃ المصابیح، کتاب الإیمان، باب الکبائر وعلامات النفاق، رقم الحدیث:55، ج:1، ص:23، ط:المکتب الاسلامی)
بدائع الصنائع میں ہے:
"لأنّ طاعة الإمام فيما ليس بمعصية فرض، فكيف فيما هو طاعة؟."
(كتاب السير، فصل فى أحكام البغاة، ج:9، ص :453، ط:دارالحديث. القاهرة)
احكام القرآن لعلامہ ظفر احمد عثمانی میں ہے:
"و هذا الحكم أي وجوب طاعة الأمير يختص بما إذا لم يخالف أمره الشرع، يدل عليه سياق الآية فإن الله تعالى أمر الناس بطاعة أولي الأمر بعد ما أمرهم بالعدل، في الحكم تنبيهًا على أن طاعتهم واجبة ماداموا على العمل."
(طاعة الأمير فيما لا يخالف الشرع، النساء،ج:2،ص:291،ط: ادارة القرآن)
طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:
"كره إمامة الفاسق، .... والفسق لغةً: خروج عن الاستقامة، وهو معنی قولهم: خروج الشيء عن الشيء علی وجه الفساد. وشرعاً: خروج عن طاعة اﷲ تعالی بارتكاب كبیرة. قال القهستاني: أي أو إصرار علي صغیرة. (فتجب إهانته شرعاً فلایعظم بتقدیم الإمامة) تبع فیه الزیلعي ومفاده كون الکراهة في الفاسق تحریمیة."
(كتاب الصلوٰة،فصل: في بيان الأحق بالإمامة،ص 303، ط: دارالکتب العلمیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144612100029
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن