بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

غسل جنابت کا حکم


سوال

غسل جنابت کا کیا حکم ہے؟

جواب

غسل جنابت کا حکم یہ ہےکہ اگرکوئی شخص جنبی ہوجائےتو اس  کےلیےغسل کرنافرض ہے،نیزجو کام بغیر وضو کے نہیں کیا جا سکتا حالتِ جنابت میں اس کا کرنا حرام ہے جیسا کہ ناپاکی کی حالت میں نماز پڑھناخواہ نفل نماز ہو یا فرض،جنبی کے لیے قرآن کریم کو پڑھنا اور چھونا حرام ہے، جنبی کا مسجد میں داخل ہونا حرام ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"(وأما) الغسل المفروض فثلاثة: الغسل من الجنابة، والحيض، والنفاس أما الجنابة فلقوله تعالى: {وإن كنتم جنبًا فاطهروا} [المائدة: 6]، أي: اغتسلوا، و قوله تعالى: {يا أيها الذين آمنوا لاتقربوا الصلاة وأنتم سكارى حتى تعلموا ما تقولون ولا جنبًا إلا عابري سبيل حتى تغتسلوا} [النساء: 43] .............(أما) الأول فالجنابة تثبت بأمور بعضها مجمع عليه، وبعضها مختلف فيه (أما) المجمع عليه فنوعان أحدهما خروج المني عن شهوة دفقا من غير إيلاج بأي سبب حصل الخروج كاللمس، والنظر، والاحتلام، حتى يجب الغسل بالإجماع لقوله - صلى الله عليه وسلم - «الماء من الماء» ، أي: الاغتسال من المني."

(كتاب الطھارۃ،فصل الغسل،1/ 35، 36، ط:دارالکتب العلمیۃ) 

وفیہ ایضاً:

"وأما) الأحكام المتعلقة بالجنابة فما لا يباح للمحدث فعله من مس المصحف بدون غلافه، ومس الدراهم التي عليها القرآن، ونحو ذلك لا يباح للجنب من طريق الأولى لأن الجنابة أغلظ الحدثين.....ولا يباح للجنب دخول المسجد."

(كتاب الطھارۃ،فصل الغسل،37/1،ط:دارالکتب العلمیۃ)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها) أنه يحرم عليهما وعلى الجنب الدخول في المسجد سواء كان للجلوس أو للعبور...( ومنها) حرمة قراءة القرآن، لاتقرأ الحائض والنفساء والجنب شيئاً من القرآن...(ومنها) حرمة مس المصحف لا يجوز لهما وللجنب والمحدث."

(کتاب الطھارۃ،الباب السادس فی الدماء الخ،39/1،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407102321

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں