بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غسل کاطریقہ


سوال

آج آپ ہی کے دارالافتاء کا ایک فتویٰ نمبر144402100033 نظر سے گزرا جس میں غسل کا طریقہ بیان کیا گیا ہے اور جس میں لکھا ہے کہ شرم گاہوں کو دھونے کے بعد وضو کرے جیسا کہ نماز کے لیے کیا جاتا ہے یہاں سوال یہ ہے کہ اکثر و بیشتر ہم نے غسل جنابت کے بارے میں یہ سنا ہے کہ شرم گاہ دھونے کے بعد ہاتھ دھوئے کلائیوں تک پھر غرارے کرے آواز کے ساتھ یعنی پانی حلق تک لے کر جائے اور ناک میں پانی ڈالے یعنی ناک صاف کرے اور پھر دائیں بائیں اور سر کے اوپر سے پورے جسم پر پانی بہائے یہاں تک کہ جسم کا کوئی بال بھی خشک نہ رہے۔ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں کہ کیا یہ عمل پاک ہونے کے لیے درست نہیں۔

جواب

صورت مسئولہ میں   وضو اور غسل دونو ں اسی طرح ہر کام ہمیں سنت کے مطابق کرنا چاہیے لہذا  مذکورہ فتوے میں جو طریقہ بیان کیا گیا ہے وہ سنت طریقہ ہے، اور جو آپ نے بیان کیا ہے اس طرح غسل تو ہو جائے گا لیکن سنت کے مطابق نہیں ہو گا، لہذا ہرکام ہمارا سنت کے مطابق ہوگا  تو اجر وثواب ملے گا اور  رسو ل اللہ ﷺ کی محبت اور شفاعت بھی نصیب ہو گی ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(و‌‌فرض الغسل) أراد به ما يعم العملي كما مر، وبالغسل المفروض كما في الجوهرة، وظاهره عدم شرطية غسل فمه وأنفه في المسنون كذا البحر، يعني عدم فرضيتها فيه وإلا فهما شرطان في تحصيل السنة (غسل)۔۔(فمه) ۔۔(وأنفه) حتى ما تحت الدرن (و) باقي (بدنه) لكن في المغرب وغيره: البدن من المنكب إلى الألية."

(کتاب الطھارۃ،فرض الغسل،152،1،سعید)

الدر المختار وحاشية ابن عابدین میں ہے :

" (وسننه) كسنن الوضوء سوى الترتيب. وآدابه كآدابه سوى استقبال القبلة؛ لأنه يكون غالبا مع كشف عورة وقالوا: لو مكث في ماء جار أو حوض كبير أو مطر قدر الوضوء والغسل فقد أكمل السنة (البداءة بغسل يديه وفرجه) وإن لم يكن به خبث اتباعا للحديث (وخبث بدنه إن كان) عليه خبث لئلا يشيع (ثم يتوضأ) أطلقه فانصرف إلى الكامل، فلايؤخر قدميه ولو في مجمع الماء لما أن المعتمد طهارة الماء المستعمل، على أنه لايوصف بالاستعمال إلا بعد انفصاله عن كل البدن لأنه في الغسل كعضو واحد، فحينئذ لا حاجة إلى غسلهما ثانيا إلا إذا كان ببدنه خبث ولعل القائلين بتأخير غسلها إنما استحبوه ليكون البدء والختم بأعضاء الوضوء، وقالوا: لو توضأ أولا لايأتي به ثانياً؛ لأنه لايستحب وضوءان للغسل اتفاقا، أما لو توضأ بعد الغسل واختلف المجلس على مذهبنا أو فصل بينهما بصلاة كقول الشافعية فيستحب (ثم يفيض الماء) على كل بدنه ثلاثاً مستوعباً من الماء المعهود في الشرع للوضوء والغسل وهو ثمانية أرطال، وقيل: المقصود عدم  الإسراف. وفي الجواهر لا إسراف في الماء الجاري؛ لأنه غير مضيع وقد قدمناه عن القهستاني (بادئاً بمنكبه الأيمن ثم الأيسر ثم رأسه) على (بقية بدنه مع دلكه) ندبًا، وقيل: يثني بالرأس، وقيل: يبدأ بالرأس وهو الأصح. وظاهر الرواية والأحاديث. قال في البحر: وبه يضعف تصحيح الدرر".

 (کتاب الطھارۃ،1/ 156،سعید )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402101363

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں