بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غسل کے متعلق چند امور


سوال

مجھے پیشاب کے قطروں کی بیماری ہے اور غسل کے دوران بہت بڑھ جاتے ہے یا مجھے لگتا ہے وہم ہے لیکن پھر بھی آپ میرے ان سوالات کا واضح جواب دیں۔ 

1. اگر منہ اور ناک میں پانی ڈالتے وقت پیشاب کے قطرے نکل جائیں تو کیا دوبارہ سے یہ عمل دوہرانا پڑے گا یا نہیں؟

2.اگر پورے جسم پر پانی ڈالتے وقت پیشاب کے قطرے نکل جائیں تو اس سے بالٹی میں موجود پانی گندا ہوگا یا نہیں؟ مطلب جب بالٹی سے پانی نکالتے ہیں تو پانی کے قطرے ہاتھ سے بالٹی میں موجود پانی میں ٹپکتے ہیں،  اس سے بالٹی میں موجود پانی پر اثر تو نہیں پڑے گا؟

3.ایک عضو دھونے کے بعد دوسرا عضو دھونے سے پہلے ہاتھ دھونا پڑے گا یا ضرورت نہیں؟

4.مجھے غسل کے بعد وہم ہوتا ہے کہ میں یہ جگہ دھونا بھول گیا یا یہ جگہ دھونا بھول گیا تو میرا سوال یہ ہے کہ پورے جسم پر پانی کیسے بہایا جائے ؟ کیونکہ کچھ ایسے حصے بھی ہے جن تک پانی نہیں پہنچتا۔

جواب

۱ : صورتِ مسئولہ اگر غسل کے دوران پیشاب آجائے تو اس سے صرف وضو ٹوٹتا ہے، غسل دوبارہ کرنا ضروری نہیں ہے، لہذا پیشاب کرنے کے بعد  جہاں سے غسل چھوڑا تھا وہیں سے کرسکتے ہیں، البتہ اس کے بعد نماز وغیرہ کی ادائیگی کے لیے مکمل وضو کرنا لازم ہوگا، اگر پیشاب کے بعد بقیہ غسل کے دوران اعضاءِ وضو مکمل دھل جائیں تو الگ سے وضو نہیں کرنا ہوگا۔ اور اگر پیشاب کرنے کے بعد ازسرِ نو غسل مکمل کیا جائے تو  یہ مستحب ہے۔ 

۲ : اگر غسل کرنے والے کے جسم پر کوئی ظاہری نجاست نہ ہو تو غسل کرتے وقت استعمال شدہ پانی کے چھینٹیں اگر غسل کے پانی میں گر جائیں اور غسل کا پانی غالب ہو تو غسل کے پانی سے پاکی حاصل کی جاسکتی ہے. البتہ اگر استعمال شدہ پانی یا اس کے چھینٹیں غسل کے پانی پر غالب ہوجائیں تو وہ پانی اگرچہ پاک رہے گا، لیکن اس پانی سے پاکی حاصل نہیں کی جاسکتی۔

اور اگر جسم پر کوئی ظاہری نجاست تھی، اسے دھوتے ہوئے ناپاک پانی کا ایک چھینٹا بھی بالٹی یا ٹب وغیرہ کے پاک پانی میں گر گیا تو  سارا پانی ناپاک ہوجائے گا. 

۳ : جس عضو کو دھویا ہے، اگر وہ پاک تھا تو دوبارہ ہاتھ دھونا لازم نہیں ہے اور اگر وہ عضو ناپاک تھااور ناپاکی کے اثرات ہاتھ پر باقی ہوں تو ہاتھ دھو لیے جائیں اور اگر ناپاکی کے اثرات ہاتھ پر باقی نہ ہوں تو ہاتھ دھونا لازم نہیں۔

۴ : صرف وہم کی بنیاد پر جگہ دھونا لازم نہیں ہے تاہم جس عضو کے بارے میں غالب گمان ہو کہ وہ دھونے سے رہ گیا ہے، اس حصے کو دھو لیا جائے۔

غسل کرنے کا مسنون طریقہ درج ذیل ہے:

  1. غسل کرنے والے کو چاہیے کہ پہلے گٹوں تک دونوں ہاتھ دھوئے پھر استنجے کی جگہ دھوئے، ہاتھ اور استنجے کی جگہ پر نجاست ہو تب بھی اور نہ ہو تب بھی ہر حال میں ان دونوں کو پہلے دھونا چاہیے۔
  2. پھر جہاں بدن پر نجاست لگی ہو اسے پاک کرے۔
  3. پھر وضو کرے۔ اگر کسی چوکی(اسٹول) یا پتھر پر بیٹھ کر غسل کررہا ہے تو وضو کرتے وقت پیر بھی دھولے اور اگر ایسی جگہ ہے کہ پیر بھر جائیں گے اور غسل کے بعد پھر دھونے پڑیں گے تو سارا وضو کرے مگر پیر نہ دھوئے۔
  4. وضو کے بعد تین مرتبہ اپنے سر پر پانی ڈالے، پھر تین مرتبہ داہنے(سیدھے) کندھے پر اور پھر تین بار بائیں(الٹے) کندھے پر پانی ڈالے اس طرح کہ سارے جسم پر پانی بہہ جائے۔ ایک مرتبہ پانی بہانے کے بعد پہلے سارے جسم پر اچھی طرح ہاتھ پھیر لے پھر دوسری بار پانی بہائے تاکہ سب جگہ اچھی طرح پانی پہنچ جائے، کہیں سوکھا نہ رہے۔
  5. پھر اس جگہ سے ہٹ کر پاک جگہ میں آجائے اور پیر دھوئے اور اگر وضو کے وقت پیر دھو لیے ہوں تو اب دھونے کی حاجت نہیں۔ اس طرح غسل مکمل ہوجائے گا۔

فتاوی عالمگیری  میں ہے:

"(الفصل الخامس في نواقض الوضوء) منها ما يخرج من السبيلين من البول والغائط والريح الخارجة من الدبر والودي والمذي والمني والدودة والحصاة، الغائط يوجب الوضوء قل أو كثر وكذلك البول والريح الخارجة من الدبر. كذا في المحيط."

(كتاب الطهارة، الباب الاول فى الوضوء، الْفَصْلُ الْخَامِسِ فِي نَوَاقِضِ الْوُضُوءِ، ج:01، ص:09، ط:مكتبه رشيديه)

و فیہ ايضاّ:

"جنب اغتسل فانتضح من غسله شيء في إنائه لم يفسد عليه الماء. أما إذا كان يسيل منه سيلاناً أفسده، وكذا حوض الحمام على قول محمد - رحمه الله - لا يفسده ما لم يغلب عليه يعني لا يخرجه من الطهورية".

(کتاب الطہارۃ، الباب الثالث فی المیاہ، ۱/۲۳، رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100975

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں