بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غسل کا طریقہ


سوال

حيض كے بعد غسل کا طریقہ بتا دیجیے؟

جواب

غسل خواہ کسی بھی ناپاکی سے طہارت کا ہو اس کا مسنون طریقہ ایک ہی ہے، وہ  یہ ہے کہ پہلے ہاتھ دھوئے اور استنجا کرے، پھر بدن پر کسی جگہ نجاست لگی ہو، اُسے دھو ڈالے، پھر وضو کرے، پھر سارے بدن پر تین مرتبہ اس ترتیب سے پانی بہائے کہ پہلے سر پر، پھر دائیں کاندھے پر، پھر بائیں کاندھے پر۔ اور جسم پر پانی بہاتے ہوئے جسم کو ملے۔

غسل میں تین چیزیں فرض ہیں:

1. کلی کرنا۔

2. ناک میں پانی ڈالنا۔

  3.پورے بدن پر پانی بہانا۔نیز  عورتوں کے لیے غسل جنابت، حیض اور نفاس میں فرج(شرم گاہ) کے ظاہری حصے کو اچھی طرح دھونا بھی فرض ہے۔

بدن کا اگر ایک بال بھی خشک رہ جائے تو غسل نہیں ہوگا اور انسان بدستور ناپاک رہے گا۔ ناک، کان کے سوراخوں میں پانی پہنچانا بھی فرض ہے، انگوٹھی چھلّہ اگر تنگ ہوں تو اس کو ہلا کر اس کے نیچے پانی پہنچانا بھی لازم ہے، ورنہ غسل نہ ہوگا۔

بعض خواتین ناخن پالش وغیرہ جیسی چیزیں استعمال کرتی ہیں جو بدن تک پانی پہنچنے نہیں دیتیں، غسل میں ان چیزوں کو اُتار کر پانی پہنچانا ضروری ہے۔ بعض اوقات بے خیالی میں ناخنوں کے اندر آٹا لگا رہ جاتا ہے، اس کو نکالنا بھی ضروری ہے۔ الغرض! پورے جسم پر پانی بہانا اور جو چیزیں پانی کے بدن تک پہنچنے میں رُکاوٹ ہیں ان کو ہٹانا ضروری ہے، ورنہ غسل نہیں ہوگا۔

عورتوں کے سر کے بال اگر گندھے ہوئے ہوں تو بالوں کو کھول کر ان کو تر کرنا ضروری نہیں، بلکہ بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچالینا کافی ہے، لیکن اگر بال گندھے ہوئے نہ ہوں (آج کل عموماً یہی ہوتا ہے) تو سارے بالوں کو اچھی طرح تر کرنا بھی ضروری ہے۔(ماخوذ از: آپ کے مسائل اور ان کا حل ج:3  ص:103  ط:مکتبہ لدھیانوی)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وهي ثلاثة: المضمضة، والاستنشاق، وغسل جميع البدن على ما في المتون. وحد المضمضة والاستنشاق كما مر في الوضوء من الخلاصة.... وليس على المرأة أن تنقض ضفائرها في الغسل إذا بلغ الماء أصول الشعر وليس عليها بل ذوائبها هو الصحيح. كذا في الهداية.... ويجب على المرأة غسل فرجها الخارج في الجنابة والحيض والنفاس ويسن في الوضوء. كذا في محيط السرخسي وفي الفتاوى الغياثية ولا تدخل المرأة أصبعها في فرجها عند الغسل وهو المختار كذا في التتارخانية".

(الباب الثاني في الغسل ، الفصل الأول في فرائض الغسل، ج: ۱، صفحہ: ۱۳ و۱۴، ط: دار الفکر- بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100218

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں