بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غسالۂ میت یعنی غسلِ میت میں استعمال شدہ پانی اور دورانِ غسل لگنے والی چھینٹوں کے حکم سے متعلق تحقیق


سوال

راجح قول کے مطابق موت کے بعد میت کا جسم نجس ہوجاتا ہے اور میت کا پہلا تین غسالہ بھی نجس ہوتا ہے، کیا یہ صحیح ہے کہ دورانِ غسل غاسل پر جو چھینٹیں نجس غسالہ کی لگ جائیں وہ بوجہ حرج اور نا گزیر ہو نے کے معاف ہے؟ اس رخصت پر فتوی ہے یا نہیں؟ کیوں کہ آپ کے ایک فتوی میں غسالۂ میت کو مطلقاً نجس کہا گیا ہے، رخصت کا ذکر نہیں۔ (فتوی نمبر : 144208201358)

حالاں کہ رد المحتار کی ایک عبارت سے غسالہ کی چھینٹں لگنے میں معاف ہونا معلوم ہوتا ہے، عبارت یہ ہے :

"وَفِي الْفَتْحِ : وَمَا تَرَشَّشَ عَلَى الْغَاسِلِ مِنْ غُسَالَةِ الْمَيِّتِ مِمَّا لَا يُمْكِنُهُ الِامْتِنَاعُ عَنْهُ مَا دَامَ فِي عِلَاجِهِ لَا يُنَجِّسُهُ لِعُمُومِ الْبَلْوَى، بِخِلَافِ الْغَسْلَاتِ الثَّلَاثِ إذَا اسْتَنْقَعَتْ فِي مَوْضِعٍ فَأَصَابَتْ شَيْئًا نَجَّسَتْهُ اهـ . (شامي : ١ / ٥٣٢ ، زكريا)"

جواب

واضح رہے کہ میت کو غسل دینے میں استعمال ہوجانے والے پانی کے سلسلے میں دو الگ الگ باتیں ہیں:

1۔ غسلِ میت کے پانی کا نجس ہونا ،

2۔ میت کو غسل دینے والے (غاسل) کے جسم پر دورانِ غسل لگنے والے میت کی پانی کے چھینٹوں کا حکم

1۔ راجح اور صحیح قول کے مطابق غسلِ میت کا پانی فی نفسہ نجس ہے، کیوں کہ انسان ایک خونی حیوان ہے، ہر خونی حیوان پر موت واقع ہوجانے سے وہ ناپاک ہوجاتا ہے، میت (غیر مغسول) بھی ناپاک اور نجس ہے، چوں کہ ہر ناپاک اور نجس چیز کو دھویا گیا پانی بھی ناپاک اور نجس ہے، لہٰذا میت کو دھویا گیا پانی بھی فی نفسہ ناپاک اور نجس ہے، یہی وجہ ہے کہ پہلے تین مرتبہ کے غسلِ میت کا پانی کسی جگہ جمع ہوجائے اور وہ پانی کسی شخص کے جسم پر لگ جائے تو جسم کے جس جگہ میں یہ پانی لگے  وہ حصہ ناپاک ہوجا ئے گا۔

2۔ میت کو غسل دینے والے (غاسل) کے جسم پر دورانِ غسل لگنے والے میت کے پانی کی چھینٹوں کے بارے میں حکم یہ ہے کہ یہ معاف ہے، کیوں کہ عام طور پر اس سے احتراز کرنا ممکن نہیں ہے، اگرچہ میت (غیر مغسول) کے غسل کا پانی نجس ہے، ضرورت اور عمومِ بلوٰی کی وجہ سے حکماً اس کو معاف سمجھاجاتا ہے، جیسا کہ پیشاپ کے سوئی کی مقدار کے برابر  قطرے اگر رفعِ حاجت کے دوران جسم پر لگ جائیں تو حرج کے باعث حکماً ان کو بھی معاف سمجھا جاتا ہے، لیکن اس سے پیشاپ کے قطروں کا پاک ہونا لازم نہیں ہوتا۔

نیز اس مسئلہ سے متعلق علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے (فصل في البئر) کے شروع میں تفصیلی جائزہ لینے کے بعد امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے قول یعنی غسالۂ میت کے نجس ہونے   کو راجح اور صحیح قرار دیا، اس کے خلاف ماء ِمستعمل ہونے کے قول کو ضعیف قرار دیا۔

صورتِ مسئولہ میں ”رد المحتار“ کی جو عبارت ذکر کی گئی ہے اس سے علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ کا منشأ بھی یہی ہے کہ میت کے غسل کا پانی راجح اور صحیح قول کے مطابق فی نفسہ نجس ہی ہے،چنانچہ علامہ موصوفؒ نے ”فتح  القدیر“ کی مذکورہ عبارت سے تأییداً یوں استدلال کیا کہ  اگر دورانِ غسل غاسل کے جسم پر میت کے پانی کی چھینٹیں لگ جاتی ہیں تو یہ عمومِ بلوٰی کی وجہ سے (حکماً)معاف ہے، لیکن اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ پانی نجاستِ خبث کا ہے ، نہ کہ نجاستِ حدث کا، کیوں کہ اگر پہلے تین مرتبہ غسلِ میت کا پانی کہیں جمع ہوجائے اور وہ کسی شخص کے جسم میں لگ جائے تو جسم کے جس جگہ پر لگے ہے وہ ناپاک ہوجاتاہے، اس سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ غسلِ میت کا پانی فی نفسہ ناپاک اور نجس ہے۔

ہمارے سابقہ فتویٰ نمبر (144208201358)میں  ”میت کا غسالہ (غسل میں استعمال شدہ پانی)کپڑوں یا جسم میں لگ جانے سے متعلق حکم “کے بارے میں سوال کے  مطابق جواب دیا گیا ہے، میت کو غسل دیتے وقت چھینٹوں کا حکم بیان نہیں کیا گیا۔

في رد المحتار:

"فصل في البئر (إذا وقعت نجاسة) ليست بحيوان ولو مخففة أو قطرة بول أو دم أو ذنب فأرة لم يشمع، فلو شمع ففيه ما في الفأرة (في بئر دون القدر الكثير) على ما مر، ولا عبرة للعمق على المعتمد (أو مات فيها) أو خارجها وألقي فيها ولو فأرة يابسة على المعتمد، إلا الشهيد النظيف والمسلم المغسول، أما الكافر فينجسها مطلقا کسقط".

وفي رد المحتار:

"(قوله النظيف) أي من نجاسة ودم سائل كما في الحلية، وسيأتي في النجاسات أنه يعفى عن دم الشهيد مادام عليه، ومفاده: أنه لو كان عليه دم لا ينجس الماء، ولذا قال في الخانية: ولو وقع الشهيد في الماء القليل لا يفسده إلا إذا سال منه الدم. .اهـ. لكن الظاهر أن معناه أنه لو خرج منه دم سائل ينجس الماء احترازا عما إذا كان ما خرج منه ليس فيه قوة السيلان، وليس معناه أنه سال منه الدم في الماء تأمل، نعم! ينبغي تقييد التنجيس بما عليه مما فيه قوة السيلان بما إذا تحلل في الماء، أما لو لم ينفصل عنه فلا ينجس تأمل (قوله والمسلم المغسول) أما قبل غسله فنصوا على أنه يفسد الماء القليل ولا تصح صلاة حامله، وبذلك استدل في المحيط على أن نجاسة الميت نجاسة خبث؛ لأنه حيوان دموي فينجس بالموت كغيره من الحيوانات، لا نجاسة حدث، وصححه في الكافي، ونسبه في البدائع إلى عامة المشايخ كما في جنائز البحر. أقول: وهذا يؤيد ما حملنا عليه كلام محمد في الأصل من أن غسالة الميت نجسة؛ ويضعف ما مر من تصحيح أنها مستعملة فافهم."

(کتاب الطهارة، باب المیاه، فصل في البئر: ج:1، ص:211، ط: سعید)

وفي الدر المختار:

"(و) عفي (دم سمك ولعاب بغل وحمار) والمذهب طهارتها جانبها الآخر وإن كثر بإصابة الماء للضرورة، لكن لو وقع في ماء قليل نجسه في الأصح؛ لأن طهارة الماء آكد جوهرة. وفي القنية: لو اتصل وانبسط وزاد على قدر الدرهم ينبغي أن يكون كالدهن النجس إذا انبسط. وطين شارع وبخار نجس، وغبار سرقين، ومحل كلاب، وانتضاح غسالة لا تظهر مواقع قطرها في الإناء عفو لا كجيفة في نهر أو نجاسة على سطح، لكن قدمنا أن العبرة للإبر."

وفي رد المحتار:

"(قوله: وانتضاح غسالة إلخ) ذكر المسألة في شرح المنية الصغير عن الخانية، وقد رأيتها في الخانية ذكرها في بحث الماء المستعمل، لكن غسالة النجاسة كغسالة الحدث بناء على القول بنجاسة الماء المستعمل، ويدل لها ما قدمناه عن القهستاني عن التمرتاشي. وفي الفتح: وما ترشش على الغاسل من غسالة الميت مما لا يمكنه الامتناع عنه ما دام في علاجه لا ينجسه لعموم البلوى، بخلاف الغسلات الثلاث إذا استنقعت في موضع فأصابت شيئا نجسته اهـ أي: بناء على ما عليه العامة من أن نجاسة الميت نجاسة خبث لا حدث كما حررناه في أول فصل البئر، واحترز بالثلاث عن الغسالة في المرة الرابعة فإنها طاهرة."

(کتاب الطهارة، باب الأنجاس: ج:1، ص:325، سعید)

وفي الفتاوٰی الهندیة:

"غسالة الميت نجسة أطلق محمد - رحمه الله - في الأصل والأصح أنه إذا لم يكن على بدنه نجاسة يصير الماء مستعملا إلا أن محمدا - رحمه الله - إنما أطلق؛ لأن الميت لا يخلو عن النجاسة غالبا. كذا في الظهيرية."

(کتاب الطهارة، الفصل فیما لا یجوز به التوضؤ: ج:1، ص:23، ط: حقانیة)

وفي البنایة شرح الهدایة للعینيؒ:

" لا غسل على من غسل ميتا، وهو قول عامة أهل العلم كابن عباس وابن عمر وعائشة والحسن البصري والنخعي والشافعي وأحمد وإسحاق وأبي ثور - رحمهم الله - وحكاه أبو بكر ابن المنذر وقال: لا شيء عليه، وليس فيه حديث يثبت. وعن علي وأبي هريرة أنهما قالا من غسل ميتا فليغتسل، وبه قال ابن المسيب وابن سيرين والزهري. وقال النخعي وأحمد وإسحاق - رحمهم الله - يتوضأ. وقال مالك: أحب له الغسل، واستحبه الشافعي. وقال في " البويطي ": إن صح الحديث قلت بوجوبه. والأول أصح. وروى أبو هريرة - رضي الله عنه - أنه - صلى الله عليه وسلم - قال: «من غسل ميتا فليغتسل» رواه أبو داود وغيره. وقال البيهقي: الصحيح أنه موقوف على أبي هريرة - رضي الله عنه -. وقال الترمذي عن البخاري أنه قال: إن أحمد وعلي بن المديني قالا: لا يصح في الباب شيء، وكذا قال محمد بن يحيى شيخ البخاري، ورواه البيهقي أيضا من رواية حذيفة مرفوعا، وإسناده ساقط. وأما «حديث علي - رضي الله عنه - أنه غسل أباه أبا طالب فأمره النبي - صلى الله عليه وسلم - أن يغتسل» ورواه البيهقي من طريق فهو حديث باطل. وحديث عائشة - رضي الله عنها - «أنه - صلى الله عليه وسلم - كان يغتسل من الجنابة ويوم الجمعة ومن الحجامة وغسل الميت» رواه أبو داود وغيره بإسناد ضعيف، وهكذا الحديث في الوضوء من حمل الميت ضعيف. وروى أبو داود والترمذي عن أبي هريرة عن النبي - صلى الله عليه وسلم -: «من غسل ميتا فليغتسل، ومن حمله فليتوضأ» وقال الترمذي: حديث حسن، قال النووي: بل عليه قوله حسن بل هو ضعيف، بين ضعفه البيهقي وغيره. وقال المزني: هذا الغسل غير مشروع، وكذا الوضوء من مس الميت وحمله، لأنه لم يصح فيها شيء. وقال في " المختصر ": لو مس خنزيرا فليس عليه شيء من الوضوء ولا الغسل، فالمؤمن أولى. قال النووي: هذا قوي. وقال أصحابنا: هذا إذا ثبت محمول على غسل ما أصابه من غسالة الميت."

(باب الجنائز، تسریح شعر المیت ولحیته: ج:3، ص:193، ط: دار الکتب العلمیة)

وفي الفقه الإسلامي وأدلته للزحیليؒ:

"ويعفى عما لا يمكن الاحتراز أو الامتناع عنه من غسالة الميت ما دام في تغسيله؛ لعموم البلوى. كما يعفى عن طين الشوارع، إلا إذا علم عين النجاسة للضرورة."

(الباب الأول: الطهارات، المبحث الثاني- المقدار المعفو عنه من النجاسة،،1-مذهب الحنفية:ج:1،ص:278، ط: دار الفکر)

ففط والله أعلم


فتوی نمبر : 144402101520

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں