بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غسل کے لیے انزال شرط نہیں


سوال

اگر مرد بیوی کے ساتھ ہم بستری کرے لیکن مرد کی منی نہ نکلے تو کیا غسل فرض ہے؟

جواب

بیوی کے ساتھ ہم بستری میں اگردخولِ حشفہ (یعنی  مرد کے عضو مخصوص کا اگلاحصہ عورت کی شرم گاہ میں داخل ہونا) پایاجائے تو اس سے مرد اور عورت دونوں پر غسل واجب ہوجاتاہے، انزال یعنی منی کا نکلنا شرط نہیں ہے؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر مرد اپنی بیوی کے ساتھ ہم بستری کرتاہے اور مرد کی شرم گاہ عورت کی شرم گاہ میں داخل ہوجاتی ہے تو غسل کرنا واجب ہے۔

البتہ اگر میاں بیوی آپس میں اس طرح ملتے ہیں کہ ان دونوں کی شرم گاہیں ایک دوسرے سے مل جائیں، لیکن دخول نہ ہو  اور انزال بھی نہ ہو تو اس سے ان دونوں میں سے کسی پر بھی غسل واجب نہ ہو گا، غسل کے وجوب کے لیے ضروری ہے  کہ مرد  کے آلۂ  تناسل کا حشفہ (آگے کا حصہ) عورت کی شرم گاہ میں داخل ہو جائے، اگر ایسی صورت پیش نہ آئے تو غسل واجب نہیں ہو  گا۔

مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 42)

"فصل ما يجب فيه الاغتسال:يفترض الغسل بواحد من سبعة أشياء خروج المني الى ظاهر الجسد إذا انفصل عن مقره بشهوة من غير جماع وتواري حشفة".

مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 43):

و" منها "توارى حشفة" هي رأس ذكر آدمي مشتهى حي احترز به عن ذكر البهائم والميت والمقطوع والمصنوع من جلد والأصبع وذكر صبي لايشتهي والبالغة يوجب عليها بتواري حشفة المراهق الغسل".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 36):

"والثاني: إيلاج الفرج في الفرج في السبيل المعتاد سواء أنزل، أو لم ينزل؛ لما روي أن الصحابة -رضي الله عنهم - لما اختلفوا في وجوب الغسل بالتقاء الختانين بعد النبي صلى الله عليه وسلم وكان المهاجرون يوجبون الغسل، والأنصار لا، بعثوا أبا موسى الأشعري إلى عائشة -رضي الله عنها- فقالت سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إذا التقى الختانان، وغابت الحشفة وجب الغسل أنزل، أو لم ينزل»، فعلت أنا ورسول الله صلى الله عليه وسلم واغتسلنا، فقد روت قولًا، وفعلًا".

الفتاوى الهندية - (1 / 15):

"( السبب الثاني الإيلاج ) الإيلاج في أحد السبيلين إذا توارت الحشفة يوجب الغسل على الفاعل والمفعول به أنزل أو لم ينزل وهذا هو المذهب لعلمائنا، كذا في المحيط. وهو الصحيح،كذا في فتاوى قاضي خان. ولو كان مقطوع الحشفة يجب الغسل بإيلاج مقدارها من الذكر،كذا في السراج الوهاج". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144107201237

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں